Bayan-ul-Quran - Al-A'raaf : 152
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا سَيَنَالُهُمْ : عنقریب انہیں پہنچے گا غَضَبٌ : غضب مِّنْ رَّبِّهِمْ : ان کے رب کا وَذِلَّةٌ : اور ذلت فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم سزا دیتے ہیں الْمُفْتَرِيْنَ : بہتان باندھنے والے
بیشک جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی ان کو عنقریب ان کے پروردگار کے غضب اور دنیا کی زندگی میں ذلت کا شکار ہونا پڑے گا اور ہم جھوٹ باندھنے والوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں
رکوع نمبر 19 ۔ آیات 152 تا 153 ۔ اسرار و معارف : غیر اللہ سے امید وابستہ کرنیوالا ذلت میں مبتلا ہوتا ہے : ایک قانون ارشاد فرمادیا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش اختیار کی انہیں دنیا بھی اللہ کا غضب اور ذلت پیش آئے گی یعنی ایسے لوگ جو حالات سے گھبرا کر یا جلد بازی میں اللہ کا دروازہ چھوڑ کر کسی دوسری ذات سے امید وابستہ کرلیتے ہیں ۔ جب آگ لینے کے لیے پہنچے تو وادی کہ اس کنارے سے جہاں پورا تختہ ہی روشن ہورہا تھا اور برکات سے بھرا ہوا تھا کہ جہاں کوئی مبارک کام ہو یا مبارک ہستی مقیم ہو وہ جگہ بھی برکات کی حامل ہوتی ہے۔ چناچہ اسی تختہ میں سے ایک درخت سے جو سارے کا سارا روشن ہورہا تھا آواز آرہی تھی کہ اے موسیٰ میں اللہ ہوں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہوں۔ وادی میں ذات باری جلوہ افروز تھی کیا ؟ : یہاں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ روشنی جلوہ ذات باری تھا بلکہ وہ نور تو تجلی صفاتی کا کا تھا کہ کلام باری خود صفت باری ہے ارشاد یہ ہورہا تھا کہ یہ کلام جو آپ سن رہے ہیں اور جس کے انوارات سے وادی بقعہ نور بنی ہوئی ہے کرنے والا میں اللہ ہوں۔ اور حکم ہوا کہ اپنے عصا کو ڈال دیجیے آپ نے پھینکا تو وہ اژدہا بن کر پھنکارنے لگا تو موسیٰ (علیہ السلام) جو فزدہ ہو کر پیچھے کو بھاگے کہ بہت بڑا اژدھا تھا آپ نے جان بچانا چاہی اور پیچھے دیکھا تک نہیں کہ دوبارہ آواز آئی کہ موسیٰ ڈریں نہیں واپس آئیں اور آگے بڑھیں۔ آپ تو اللہ کی طرف سے امن دیے گئے ہیں یہ آپ کا معجزہ ہے آپ کی مدد اور نبوت کا ثبوت ہے اسے ہاتھ میں لیجیے عصا بن جائے گا۔ اب اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالیے جب نکالیں گے تو بہت روشن ہوگا اور گھبرنے کی کوئی بات نہیں جب دوبارہ گریبان میں ڈالیں گے تو درست ہوجائے گا۔ دوسرے معجزات کے ساتھ یہ دو عظیم معجزات آپ کی نبوت کی دلیل ہیں آپ فرعون اور اس کے امراء سے بات کیجیے انہیں راہ راست کی طرف بلائیے کہ وہ بہت سخت نافرمان ہیں۔ آپ نے عرض کیا بارالہا مجھ سے تو ان کا ایک قبطی مارا گیا تھا خطرہ یہ ہے کہ بات سننے سے پہلے ہی وہ میرے قتل کا حکم صادر کردے پھر اگر بات ہو اور سوال جواب کرنے پڑیں تو میری زبان میں لکنت ہے جن کہ میرے بھائی ہارون بڑے فصیح ہیں اور خوب کلام کرسکتے ہیں انہیں آپ میرے سات کردیجیے کہ وہ میری قوت بھی ہوں گے اور میری تصدیق بھی کریں گے فرعونیوں سے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ میری تکذیب کریں گے تو کوئی ایسا بھی ہو جو ان کے روبرو تصدیق بھی کرے۔ ارشاد ہوا تمہارے بھائی کو تمہاری قوت بازو بنا دیں گے یعنی انہیں بھی نبوت سے سرفراز کر کے ساتھ کردیا اور تمہیں وہ رعب عطا کریں گے کہ فرعونی ہاتھ ڈالنے کی جرات ہی نہ کرسکیں گے نیز آپ معجزات لے کر جائیں یہ بات طے ہے کہ آپ اور آپ کے اطاعت شعار ہی فاتح اور غالب ہوں گے موسیٰ (علیہ السلام) معجزات کے ساتھ نوید فتح لے کر فرعون کی طرف روانہ ہوئے۔ اور جب فرعون کے دربار میں پہنچے دعوت دی اور معجزات کا اظہار فرمایا تو اہل دربار کہنے لگے یہ سب جادو کا کھیل نظر آتا ہے اور ساری بات ایک تراشیدہ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آج تک ہمارے باپ دادا نے کسی نبی یا دین کا نام تک نہیں سنا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ حق اور باطل کا فیصلہ تو پروردگار ہی کے پاس ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ اس کی بارگاہ سے ہدایت کا پیغام کون لایا ہے اور انجام کار کس کو فتح اور آخرت کی کامرانی نصیب ہوگی لیکن یہ ظاہر ہے کہ ظلم کبھی کامیاب نہ ہوگا اور نہ ہی اللہ ظالموں کا بھلا کرے گا اور تم لوگ ظالم ہو لہذا تمہارا انجام واضح ہے۔ فرعون کہنے لگا کہ اے ہامان میں نہیں سمجھتا کہ میرے علاوہ کوئی دوسری ایسی ہستی ہے جس کی پوجا اور اطاعت کی جائے اگر کوئی آسمانوں پہ ہے تو پھر مٹی کو آگ میں پکا کر اس سے ایک بہت بڑی اور بلند وبالا عمارت بناؤ کہ اس سے جھانک کر آسمانوں تک میں دیکھا جاسکے کہ کہیں موسیٰ کا معبود بھی ہے حالانکہ میں یہ جانتا ہوں کہ وہ غلط کہ رہا ہے۔ فرعون کے حکم سے ہامان نے اینٹ ایجاد کی : یعنی اول اینٹ جو تیار کی گئی وہ ہامان نے ایجاد کی۔ اور ایک بلند وبالا عمارت کھڑی کی گئی اور فرعون کو حسرت ہی رہی فرعون کو اپنے لشکروں پہ اور طاقت پہ بڑا گھمنڈ تھا اس نے تکبر کی راہ اختیار کی اور اس کے لشکر بھی زمین پر ناحق اکڑتے پھرتے تھا جیسے انہوں نے یہ سمجھ لیا ہو کہ انہیں پلٹ کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہونا۔ چنانچہ اللہ کی گرفت میں پکڑے گئے فرعون بھی اور اس کے لاؤ لشکر بھی اور پانی میں غرق کر کے تباہ کردیے گئے اے مخاطب طلم کرنے والوں کا انجام دیکھ لے کہ برائی کرتے کرتے وہ جہنم کی طرف بلانے والے داعی اور امام بن گئے۔ لفظ امام : لفظ امام کوئی شرعی منصب نہیں یہ پہلے بھی گزر چکا یہ محض قیادت اور لیڈر شپ کے معنوں میں کتاب میں استعمال ہوا نیک لوگوں کا رہنما بھی امام کہ لایا اور کفار و بدکار کا راہنما یا لیڈر بھی لہذا شیعہ کا منصب امامت محض ایک گھڑی ہوئی بات ہے ہ شرعی منصب ہی نہیں اور فرعونی ایسے امام بنے جو دوزخ کی طرف دعوت دیتے تھے اور روز حشر جن کی مدد کو بھی کوئی نہیں ہوگا یعنی شفاعت سے بھی محروم ہوں گے اور ان کے اعمال بد کے نتیجے میں اس دنیا میں بھی ان پر لعنت مسلط کردی گئی کہ وہ نہ رہیں تو بھی انہیں پھٹکار پڑتی رہے اور روز حشر ان کا بہت برا حال ہوگا۔ ہر برائی بجائے خود آگ ہے : یہاں ثابت ہے کہ ہر برا عمل بجائے خود ایک آگ ہے اور آخرت میں جس طرح نیکی گل و گلزار بن جائے گی ویسے ہی برائی انگاروں کی صورت اختیار کرلے گی۔ اور جب پہلی امتیں اپنی گمراہی کے سبب ہلاک ہوگئیں تو ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرما کر مبعوث فرمایا جس میں بصائیر یعنی عقل سلیم کی رہنمائی کرنے والی باتیں اور صحیح رہنمائی اور اللہ کی رحمت تھی کہ حق بات عقل سلیم کو اپیل کرتی ہے پھر بندہ ایمان قبول کرتا ہے تو یہ ہدایت ہوگی اور پھر اعمال صالح نصیب ہوتے ہیں جو رحمت ہیں اور یہ اہتمام اس لیے فرمایا کہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور جب یہ سب ہورہا تھا یا موسیٰ (علیہ السلام) سے بات ہو رہی تھی تو انہیں کتاب عطا ہوئی تو آپ طور پر تشریف نہ رکھتے تھے کہ آپ نے وہ واقعہ دیکھا ہو پھر بر شمار لوگ گزرے اور زمانے بیت گئے یہ باتیں لوگوں کے علوم سے مٹ گئیں اور نہ ہی آپ اہل مدین کے زمانے میں وہاں تھے کہ آپ یہ واقعات پوری صحت کے ساتھ بیان فرماتے۔ یہ تو ہمارا کرم ہے کہ سلسلہ نبوت کو جاری رکھا اور ہدایت کے لیے انبیاء بھیجتے رہے اور اب آپ مبعوث ہوئے اور یہ حقائق بذریعہ وحی آپ تک پہنچے۔ آپ تو طور پر موجود نہ تھے جب موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف ہمکلامی نصیب ہوا آپ پر تو یہ سارے حقائق اللہ کی رحمت سے بذریعہ وحی نازل ہوئے تاکہ ان لوگوں کے پاس آپ مبعوث ہوں جن کے پاس عرصہ دراز سے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا اور یہ زمانہ اور اہل زمانہ حقائق سے دور اور ہدایت سے محروم ہوچکے ہیں تو آپ کے ارشادات سے نصیحت حاصل کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب اپنے کرتوتوں کے باعث تباہ ہونے لگیں تو کہنے لگیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے ہمارے پاس بھی تو رسول بھیجا ہوتا تاکہ ہم آپ کی آیات پر عمل پیرا ہوتے اور ایمان والے بندوں میں شامل ہوسکتے۔ مگر اب جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق پہنچا تو ایک نیا نقطہ نکال لائے کہ قرآن ویسے یکبارگی کیوں نہ عطا ہوا جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک ہی بار تورات عطا ہوئی تھی تو کیا جب موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا ہوئی تھی تو لوگوں نے مان لی تھی اور کفر نہ کیا تھا بلکہ اب قرآن کو بھی سن کر کفار کہتے ہیں وہ بھی اور یہ بھی جادو بھری باتیں ہیں اور ہم ان سب باتوں کے ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہیے کہ غرض تو حق کا اتباع کرنے سے ہے اگر بالفرض قرآن حق نہیں ہے تو حق کیا ہے تم پیش کردو کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہو اور ان دونوں سے بہتر رہنمائی کرتی ہو تو میں اس کا اتباع کرلوں گا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو ایسا کر دکھاؤ اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر یہ اللی کی کتاب ہدایت اپنی حقانیت کے ثبوت کے ساتھ موجود ہے تم مان لو۔ اس پر بھی آپ کی بات نہ مانیں تو جا لیجیے کہ یہ لوگ نہ ہدایت پر چلتے ہیں اور نہ ہدایت کے طالب ہیں بلکہ محض اپنی خواہشات نفس کے غلام ہیں اور جو کوئی بھی اللہ کی ہدایت کے بغیر محض اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا اور یہ پکی بات ہے کہ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نصیب نہیں فرماتے۔ اور پھر قرآن حکیم کے مسلسل اتارے جانے کی حکمت ارشاد ہوئی کہ ہم نے قرآن کریم کو بتدریج نازل فرمایا کہ لوگوں کو بار بار تازہ بتازہ کلام الہی نصیب ہوتا رہے اور مسلسل دعوت الی اللہ دی جاتی رہے نیز ہر آیت کو واقعات اور سوالات کے جواب میں نازل فرما کر یہ سہولت پیدا کردی کہ یاد رکھنے میں بھی آسانی ہو ورنہ اللہ قادر ہے تورات کی طرح ایک ہی دفعہ بھی عطا فرما دیتا۔ اور یہ محض اعتراض ہے ورنہ وہ لوگ جو اہل کتاب میں سے ایمان دار تھے اور اپنی کتاب پر ہی ایمان رکھتے تھے جب ان کے سامنے یہ آیات پڑھی گئیں تو انہوں نے فورا کہا کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ یہ حق ہے اور ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے اور ہم تو اس کے نازل ہونے اور آپ کی بعثت سے پہلے ہی اپنی کتابوں میں پیش گوئیاں پڑھ کر یہ خقیقت تسلیم کیے بیٹھے تھے اب جب آپ کی بعثت کی سعادت سے مشرف ہونے کا موقع نصیب ہوگا تو بھلا کیسے نہ مانیں گے ۔ سنت کا اتباع فرض ہے : اور ایسے لوگ جو اس نور کا یعنی کلام باری کا جو ہر طرح کی ظلمت کے مقابلے میں ایک روشن راستہ ہے اتباع کرتے ہیں ایسے ہی لوگ ہر طرح کی کامیابی اور دو عالم کی فلاح کو پا لیتے ہیں اس لیے کہ سنن میں امور دو طرح سے ہیں۔ مفسرین کرام کے مطابق یہ آیت ابو طالب کے بارہ میں نازل ہوئی کہ آپ ﷺ کی بہت خواہش تھی انہیں ایمان نصیب ہو مگر خود وہ آمادہ نہ ہوئے۔ صاھب روح المعانی نے اس موضوع پر بحث سے منع فرمایا ہے کہ آپ ﷺ کو طبعی طور پر دکھ پہنچنے کا احتمال ہے۔ اول اتباع نبوت جو شروع آیت میں مذکور ہے کہ ایمان و عمل اور خود قرآن کو اللہ کی کتاب ماننا بھی آپ کی اطاعت اور اتباع پر منحصر ہے لہذا سنت کا اتباع بھی فرض ہوا دوسرے آپ نے جو عقائد ارشاد فرمائے ہیں بلا کم وکاست قبول کرنا اور آپ سے محبت آپ کا ادب و احترام جو اطاعت پر مجبور کردے اور آپ کی منشا کی تکمیل پہ جان لڑا دینا اور اس نور یعنی قرآن کا اتباع جو آپ کے ساتھ نازل ہوا یہ کلید جنت ہے۔
Top