Bayan-ul-Quran - Al-An'aam : 109
وَّ قُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیْفًاؕ
وَّقُلْنَا : اور ہم نے کہا مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد لِبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل کو اسْكُنُوا : تم رہو الْاَرْضَ : زمین (ملک) فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آئے گا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : آخرت کا وعدہ جِئْنَا : ہم لے آئینگے بِكُمْ : تم کو لَفِيْفًا : جمع کر کے
اور وہ اللہ کی قسمیں کھا رہے ہیں شدو مد کے ساتھ کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آجائے تو وہ لازماً ایمان لے آئیں گے کہہ دیجیے کہ نشانیاں تو سب اللہ کے اختیار میں ہیں اور (اے مسلمانو !) تمہیں کیا معلوم کہ جب وہ نشانی آجائے گی تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے
آیت 109 وَاَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَءِنْ جَآءَ تْہُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِہَا ط۔ پھر ان کے اسی مطالبے کا ذکر آگیا کہ کس طرح وہ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر انہیں معجزہ دکھا دیا جائے تو وہ لازماً ایمان لے آئیں گے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ یہ مضمون اس سورة مبارکہ کا عمود ہے۔ ان کا یہ مطالبہ تھا کہ جب آپ ﷺ نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر معجزہ کیوں نہیں دکھاتے ؟ اس سے پہلے تمام انبیاء معجزات دکھاتے رہے ہیں۔ آپ خود کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ٰ نے اپنی قوم کو معجزات دکھائے ‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی معجزات دکھائے ‘ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو معجزہ دکھایا ‘ تو پھر آپ معجزہ دکھا کر کیوں ہمیں مطمئن نہیں کرتے ؟ ان کے سردار اپنے عوام کو متاثر کرنے کے لیے بڑی بڑی قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ آپ ﷺ دکھائیے تو سہی ایک دفعہ معجزہ ‘ اسے دیکھتے ہی ہم لازماً ایمان لے آئیں گے۔ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ آپ ﷺ انہیں صاف طور پر بتائیں کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اس طرح کا کوئی معجزہ نہیں دکھانا چاہتا۔ ان کی اس طرح کی باتوں کا چونکہ مسلمانوں پر بھی اثر پڑنے کا امکان تھا اس لیے آگے فرمایا : وَمَا یُشْعِرُکُمْ لا اَنَّہَآ اِذَا جَآءَ تْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ یہ لوگ ایمان تو معجزہ دیکھ کر بھی نہیں لائیں گے ‘ لیکن معجزہ دیکھ لینے کے بعدان کی مہلت ختم ہوجائے گی اور وہ فوری طور پر عذاب کی گرفت میں آجائیں گے۔ اس لیے ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں معجزہ نہ دکھایا جائے۔ چناچہ ان کی باتیں سن سن کر جو تنگی اور گھٹن تم لوگ اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہو اس کو برداشت کرو اور ان کے اس مطالبے کو نظر انداز کردو۔ اب جو آیت آرہی ہے وہ بہت ہی اہم ہے۔
Top