Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 4
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ
وَ : اور مَا تَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس نہیں آئی مِّنْ : سے۔ کوئی اٰيَةٍ : نشانی مِّنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّهِمْ : ان کا رب اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ ہوتے ہیں عَنْهَا : اس سے مُعْرِضِيْنَ : منہ پھیرنے والے
جب کبھی ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ان کے پاس پہنچی تو انہوں نے اس سے روگردانی ہی کی۔
لغات القرآن : آیت نمبر 4 تا 6 : ماتاتی (نہیں آتی) ‘ معرضین (اعراض کرنے والے۔ منہ پھیرنے والے) ‘ کذبوا ( انہوں نے جھٹلایا) انبوا (سچی خبریں) ‘ یستھزء ون ( وہ مذاق کرتے ہیں) ‘ الم یروا (کیا انہوں نے نہیں دیکھا) ‘ اھلکنا ( ہم نے ہلا کردیا) ‘ قرن (امتیں۔ جماعتیں) ‘ مکنا ( ہم نے جمایا۔ قوت دی) ‘ لم نمکن (ہم نے قوت نہیں دی) ‘ ارسلنا (ہم نے بھیجا) ‘ مدرار (لگاتار برسنا۔ مسلسل) ‘ انشانا ( ہم نے پیدا کیا) ‘ اخرین (دوسرے) ۔ تشریح : آیت نمبر 4 تا 6 : ہر شخص اپنے آپ کو عقلمند سمجھنے اور دوسروں کی نگاہوں میں مہا عاقل دکھانے کے لیے پریشان رہتا ہے۔ اللہ کی طرف سے بڑے بڑے پیغمبر آئے ‘ انہوں نے بڑے بڑے معجزے دکھائے ‘ توحید اور اسلام کے حق میں بڑے بڑے دلائل پیش کئے گئے مگر ان خود ساختہ عقل مندوں نے ان پر کوئی نہ کوئی اعتراض جڑ دیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ اسلام کے اندر آنا ایک فرماں برداری ‘ ایک تنظیم ‘ ایک اور امرو نواہی کے اندر آنا ہے۔ وہ لگو جنہوں نے عقل مندی اور سرداری کی پوزیشن حاصل کرلی تھی کس طرح اس نظم و ضبط کو مان سکتے تھے۔ اب اس وقت مکہ کے کفار و مشرکین کے سامنے قرآن ہے جس نے چیلنج کررکھا ہے کہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت جیسی ایک سورت بنا لائو۔ بڑے سے بڑے نثر اور نظم والے اس چیلنج کے سامنے سر نہ اٹھا سکے۔ ان کے سامنے خود پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی ہستی ہے جنہوں نے ساری زندگی ان ہی کے درمیان گزاری ہے۔ جن کے سارے شب و روز ان کو معلو م ہیں اور انہیں اب تک کوئی بات قابل اعتراض نظر نہیں آئی۔ جنہیں سب لوگ صادق اور امین کہتے ہیں۔ مگر نہ ماننے والے طرح طرح کے بہانے بنا رہے ہیں۔ ناماننے والوں کے لئے فرمایا گیا کہ بہت جلد قیامت تمہارے سامنے آئی جاتی ہے۔ اگر آج علم و عقل کے ذریعہ یقین نہیں کرتے توکل آنکھوں سے دیکھ کر یقین کر لوگے۔ اور اس وقت یقین سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ان آیات کے معنی بعض مفسرین نے یہ بھی لئے ہیں کہ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اے اہل مکہ تم اس وقت اسلام اور پیغمبر اسلام کو کمزور اور بےطاقت سمجھ رہے ہو۔ بہت جلد مدنی دور آرہا ہے جب اسلام ایک عظیم طاقت بن کر ابھرے گا نہ صرف یہ کہ مکہ فتح ہوجائے گا بلکہ تم سیاسی اور مذہبی طور پر ناچیز بن کر رہ جائو گے۔ قرآن تاریخ کے واقعات کو عبرت اور نصیحت بنا کر پیش کرتا ہے کہ اے مشرکو اور کافرو ! آج اپنی سیاسی اور مالی طاقت پر نہ اترائو۔ تم سے پہلے بھی بڑی بڑی طاقتیں دنیا میں آئیں اور جب وہ پیغمبر وقت کے سمجھانے کے باوجود گناہوں میں غرق ہوتی چلی گئیں تو آنا فانا خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں۔ ایک فرعون ہی کو دیکھ لو۔ فراعنہ کے انسا خاندان یکے بعد دیگرے آئے سب نے ملاکر تین ہزار سال سے زیادہ مصر پر حکومت کی۔ اس حکومت مصر کے ذریعہ وہ ایشیا افریقہ اور یورپ پر اثر انداز رہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ ایک ہی دن میں یہ عظیم الشان طاقت دریائے نیل میں یوں غرق ہو کر ہمیشہ کے لئے ملیا میٹ ہوجائے گی کہ کوئی ان کا نام لیوا تک نہ رہے گا۔ فرمایا جارہا ہے کہ پھر تمہاری کیا حیثیت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ قرآن نے یہ بھی تہدید کردی کہ تم مٹ جائو گے تو سرزمین عرب بےرونق نہیں ہوجائے گی۔ عادو ثمود اور اہل فرعون آئے اور گئے۔ کیا دنیا ویران ہوگئی ؟ نہیں۔ ان کی جگہ لینے کے لئے نئی قومیں وجود میں آگئیں۔ اللہ نے انہیں آزمائش کا موقع دیا۔ جس طرح ایک انسان مرتا ہے تو جگہ خالی نہیں رہتی۔ وہاں دوسرا انسان آجاتا ہے۔ اسی طرح جب ایک قوم مٹادی جاتی ہے تو دوسری نئی قوم اس کی جگہ پکڑ لیتی ہے۔ دنیا کی رونق میں کبھی کمی نہیں آئی۔ کیونکہ اس نظام کائنات کو چلانے والی ایسی ذات ہے کہ جس کو موت نہیں آتی وہ زندہ ہے اور سارے نظام کائنا ت کو سنبھالنے والی ہے۔
Top