Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 35
لِیُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
لِيُكَفِّرَ : تاکہ دور کردے اللّٰهُ : اللہ عَنْهُمْ : ان سے اَسْوَاَ : برائی الَّذِيْ : وہ جو عَمِلُوْا : انہوں نے کیے (اعمال) وَيَجْزِيَهُمْ : اور انہیں جزا دے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : بہترین (اعمال) الَّذِيْ : وہ جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
تاکہ اللہ ان سے دفع کر دے ان کاموں کے بدتر انجام کو جو انہوں نے کئے اور ان کو ان کاموں کا اس سے خوب تر صلہ دے جو انہوں نے کئے
آیت 35 روز جزا کی غایت یہ غایت بیان ہئوی ہے اس روز جزا کی جس کا ذکر اوپر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دن اس لئے مقرر فرمایا ہے کہ اپنے خوب کار بندوں کے دامن سے ان کے اعمال کے بدتر اثرات کو جھاڑ دے اور ان اعمال کا جو خوب تر صلہ ہے اس سے ان کو نوازے یہ امر یہاں محلوظ رہے کہ اس دنیا میں آدمی نہ اپنے برے اعمال کے اثرات و نتائج ہی سے کما حقہ آگا ہو سکتا نہ اپنے اچھے اعمال کے صلہ کے قدر و یمت ہی سے یہ دنیا چند روزہ ہے اور اس جزا یا سزا کا تعلق ایک ایسی دنیا سے ہے جس کی سزا بھی ابدی ہے اور جزا بھی اسی وجہ سے آیت میں اسرا اور احسن کے الفاظ استعمال ہوئے مدعا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ روز جزا اسی لئے مقرر فرمایا ہے کہ اس کے جو بندے ایمان و عمل کی روش اختیار کریں ان کو وہ ان کے اعمال کے تاریک تر پہولو کے اثرات سے بچائے اور ان کے اعمال کا جو سب سے اعلیٰ پہلو ہے اس کی برکتوں سے نوازے۔ گویا اس میں یہ رہنمائی بھی دے دی گئی کہ آدمی اپنے عمل کے صرف فوری اثرات و نتائج ہی پر نگاہ نہ رکھے بلکہ ان اثرات و نتائج پر نگاہ رکھے جو ایک ابدی زندگی میں ان پر مترتب ہونے والے ہیں۔
Top