Baseerat-e-Quran - Al-Furqaan : 51
وَ لَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ نَّذِیْرًا٘ۖ
وَلَوْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہتے لَبَعَثْنَا : تو ہم بھیجدیتے فِيْ : میں كُلِّ قَرْيَةٍ : ہر بستی نَّذِيْرًا : ایک ڈرانے والا
اور اگر ہم چاہتے تو ( آپ کی مدد کے لئے) ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیجتے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 51 تا 60 : لوشئنا (اگر ہم چاہتے) ‘ لبعثنا ( البتہ ہم ضرور بھیجتے) ‘ لا تطع (کہنا مانیئے) جھاد کبیر (زوردار مقابلہ) ‘ مرج ( اس نے ملایا) ‘ البحرین (دودریاؤں کو) ‘ عذب (میٹھا) ‘ فرات (خوش گوار۔ پی کر مزہ آئے) ‘ ملح (کھاری) ‘ اجاج (کڑوا) ‘ حجر (آڑ۔ رکاوٹ) ‘ محجور ( جو خود آڑ میں ہو) ‘ نسب (نسب۔ نسبی رشتے) ‘ صھر (شادی کے رشتے ۔ سسرال) ‘ ظھیر ( سرکش۔ مقابل۔ پشت پناہی کرنے والا) ‘ ما اسئل (میں نہیں مانگتا) ‘ ذنوب (ذنب) (گناہ ۔ خطائیں) ‘ ستۃ ایام (چھ دن) ‘ استوی ( وہ برابر ہوا۔ جلوہ گرہوا) ‘ تأ مرنا ( تو ہمیں حکم دیتا ہے) ‘ نفور (نفرت۔ ناگواری) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 60 : اللہ تعالیٰ نے راہ سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ ہدایت اور صراط مستقیم پر چلانے کے لئے ہر زمانہ اور ہر ملک میں اپنے ایسے بندوں کو بھیجا ہے جو ساری انسانیت کے خیر خواہ ‘ غم خوار ‘ مخلص ‘ مصلح اور بد اعمالیوں کے برے انجام سے ڈرانے اور نیکیوں پر ابدی جنت اور اس کی راحتوں کے عطا کئے جانے کی خوش خبریاں سنانے آتے ہیں۔ جن کی کوئی دنیاوی غرض اور لالچ نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ کی مخلوق کے لئے دن رات مخلصانہ جدو جہد کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کو شیطان کے راستے سے بچا کر رحمن کا بندہ بنادیں۔ تمام نبیوں اور رسولوں کے آخر میں اللہ نے اپنی رحمت خاص سے حضرت محمد ﷺ کو اپنا آخری نبی بنا کر بھیجا ہے تاکہ ساری انسانیت پر اللہ کے پیغام کی تکمیل ہوجائے اور ان کی امت ان کی لائی ہوئی ہدایت سے قیامت تک ساری انسانیت کی رہنمائی کا فرض سر انجام دیتی رہے۔ انبیائی کرام (علیہ السلام) ہر شخص تک اس پیغام کو پہنچادیتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک پتہ بھی اس وقت تک نہیں ہلتا جب تک اس خالق ومالک اللہ کی طرف سے حکم نہیں آجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ نرمی اور محبت سے اللہ کا پیغام پہنچاتے رہیئے اور کسی کی پر ورانہ کیجئے کیونکہ یہ روشنی پھیلنے کے لئے ہے اگر اس میں کوئی رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے تو آپ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیجئے۔ ان ہی باتوں کو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے۔ اے نبی ﷺ ! اگر ہم چاہتے تو آپ کی مدد کے لئے ہر بستی میں ایک مدد گار اور ڈرانے والے کو بھیج دیتے لیکن یہ بات اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے۔ اس لئے آپ ان کی کسی بات کو نہ مانیئے ‘ اللہ کا پیغام پہنچاتے رہئیے ‘ اور پوی قوت و طاقت سے کفر و شرک کر ڈٹ کا مقابلہ کیجئے۔ یہ اس اللہ کا دین ہے جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اور اس کے انتظام کو وہ بغیر کسی کی شراکت کے چلارہا ہے۔ اس نے پوری دنیا کے نظام کو پوری طرح تھام رکھا ہے جو اس کی قدرت کی نشانی ہے ۔ اس نے دودریا بنائے جن میں سے ایک دریا کا پانی میٹھا ہے جس سے انسان اور جانور فائدہ حاصل کرتے اور اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ دوسرا دریا کھارے یا کڑوے پانی کا ہے دونوں دریا اس طرح بہہ رہے ہیں کہ میٹھا اور کھارا پانی آپس میں نہیں ملتا۔ علماء نے لکھا ہے کہ دنیا میں سیکڑوں ایسے مقامات ہیں جہاں دو مختلف پانی بہہ رہے ہیں مگر وہ آپس میں نہیں ملتے اور دونوں دریاؤں کی تمام خصوصیات اپنی جگہ برقراررہتی ہیں۔ فرمایا کہ ان کو سنبھالنے والا کون ہے ؟ اگر اللہ کی قدرت و طاقت نہ ہوتی تو انسان کو میٹھا پانی تک نصیب نہ ہوتا کیونکہ سمندروں اور کھارے پانی کے دریا میٹھے پانی میں اس طرح مل جاتے کہ میٹھے پانی کا وجود تک مٹ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ خود انسان کا وجود اللہ کی ایک نشانی ہے۔ اللہ نے اسکو ایک معمولی قطرے سے جیتا جاگتا انسان بنا دیا۔ وہ جوان ہو کر شادی کرتا ہے جس سے اس کو سکون ملتا ہے ‘ بیوی ‘ بچے ‘ نسبی اور سسرالی رشتہ داریاں بنتی چلی جاتی ہیں جس سے انسان معاشرہ کا ایک بہترین اور معزز فرد بن کر ابھرتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کی قدرت کا ملہ سے ہوتا ہے اس میں انسانی کوششوں کو دخل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے جس کی عبادت و بندگی کرنی چاہیے مگر بعض ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی قدرت کو جانتے بوجھتے جب اس کے سامنے سر جھکانے اور بندگی کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے حقیقی مالک اللہ کو بھول کغیر اللہ کی عبادت و بندگی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ وہ ” غیر اللہ “ نہ تو ان کو کوئی نفع پہنچانے کے قابل ہیں اور نہ ان کو کسی طرح کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ وہ لوگ درحقیقت بتوں کی نہیں بلکہ شیطان کی پیروی کرکے اس کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں وہ شیطان جو انسان کا کھلا ہوا ازلی دشمن ہے۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ نہایت وضاحت سے اس بات کا اعلان کردیجئے کہ میں تمہارا مخلص ہوں تاکہ تمہیں خیر خواہی کے ساتھ سیدھے راستے کی ہدایت کروں۔ اس میں میری کوئی ذاتی غرض نہیں ہے میں تم سے دین اسلام کا پیغام پہنچانے کا کوئی معاوضہ یا بدلہ نہیں چاہتا۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ سب مل کر اس راستے پر چلیں جو ان کو جہنم سے بچا کر جنت کی راحتوں سے ہم کنار کر دے۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ تمام معاملات میں اس اللہ پر بھروسہ کیجئے جو زندہ ہے جس کو موت نہ آئے گی۔ وہی تمام حمد وثنا کا مستحق ہے آپ اسی کی حمد وثناکیجئے۔ وہ اپنے تمام بندوں کے حالات اور خطاؤں کو جاننے کے لئے کافی ہے۔ اللہ وہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں اور ان کے درمیان جو کچھ بھی ہے وہ سب اسی کا ہے۔ اسی نے چھ دن میں اس دنیا کو پیدا کیا اور پھر اس نے نظام کائنات کو خود سنبھال کر بیغر کسی شرکت اور مدد کے وہ خود اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے جس کو ہر باخبر آدمی اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ اللہ رحمن و رحیم ہے جو تمام عبادتوں کا مستحق ہے۔ لیکن ان کفار کا یہ حال ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ رحمن کو سجدہ کریں تو وہ پوچھتے ہیں کہ یہ رحمن کون ہے ؟ وہ کفار کہتے ہیں کہ کبھی آپ کہتے ہیں کہ اللہ کی عبادت و بندگی کرو اور کبھی کہتے ہیں کہ رحمن کی بندگی کرو کیا آپ کے کئی کئی معبود ہیں اور کیا ہم اسی لئے رہ گئے ہیں کہ آپ جس کی بندگی کرنے کے لئے کہیں ہم اسی کی بندگی شروع کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان عقل کیا ندھوں سے یہ فرمایا ہے کہ اللہ اور رحمن یہ دو ذاتیں نہیں ہیں بلکہ اللہ ایک ہی ذات ہے اور رحمن اس کی سب سے اعلیٰ صفت ہے۔ لیکن ان کفار کا تو یہ عالم ہے کہ جب ان سے اللہ رحمن رحیم کی عبادت و بندگی کے لئے کہا جاتا ہے تو ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان کی نفرتوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ ایک اللہ کی عبادت و بندگی اور سجدہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
Top