Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 76
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْۤا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ لِیُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا لَقُوا : اور جب وہ ملتے ہیں الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوْا : وہ کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاِذَا : اور جب خَلَا : اکیلے ہوتے ہیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اِلٰى۔ بَعْضٍ : پاس۔ بعض قَالُوْا : کہتے ہیں اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ : کیا بتلاتے ہوا نہیں بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ : جو اللہ نے ظاہر کیا عَلَيْكُمْ : تم پر لِيُحَاجُّوْكُمْ : تاکہ وہ حجت تم پر لائیں بِهٖ : اس کے ذریعہ عِنْدَ : سامنے رَبِّكُمْ : تمہارا رب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم نہیں سمجھتے
اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جس وقت آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو اس لیے بتائے دیتے ہو کہ (قیامت کے دن) اسی کے حوالے سے تمہارے پروردگار کے سامنے تم کو الزام دیں کیا تم سمجھتے نہیں ؟
76۔ (آیت)” واذا لقوا الذین امنوا “ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ، حضرت حسن ؓ حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں اس سے مراد منافقین یہود ہیں جو اپنی زبانوں سے ایمان لائے جب وہ مؤمنین مخلصین سے ملتے ہیں ” قالوا امنا “ (ہم ایمان لائے) تمہارے ایمان کی طرح ” واذا خلا “ لوٹا ” بعضھم الی بعض “ کعب بن اشرف ، کعب بن اسد ، وھب بن یہودا اور انکے علاؤہ رؤساء یہود۔ ان کے اس معاملہ پر (آیت)” قالوا اتحدثونھم بما فتح اللہ علیکم “ (ان کو بیان کرتے ہو) وہ کچھ جو اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہاری کتاب میں واضح فرمایا ، یہ کہ حضرت محمد ﷺ حق ہیں اور ان کی بات سچی ہے اور فتاح بمعنی قاص ہوتا ہے یعنی بیان کرنے والا ۔ اور کسائی کہتے ہیں ” بما فتح اللہ “ کا معنی ” بما بینہ لکم “ ہے یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بیان کیا ، حضور ﷺ صفات اور حلیہ مبارکہ کا علم واقدی کہتا ہے ” بما فتح اللہ “ کا معنی ہے ” بما انزل علیکم واعطاکم “ یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم پر نازل فرمایا اور تمہیں عطا کیا اور اسی کی مثال ہے ۔ ” لفتحنا علیم برکات من السماء والارض “ یعنی ہم ہی نازل کرتے ۔ ابوعبیدہ (رح) کہتے ہیں ” بما فتح اللہ “ کا معنی ہے وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان فرمائی اور تمہیں عنایت کی ۔ ” لیحاجوکم بہ “ تاکہ اس کے ذریعے تم سے جھگڑا کریں ۔ اس سے مراد اصحاب محمد ﷺ تھے اور وہ تمہارے ہی قول کے ذریعے تم پر حجت پکڑیں ، پس کہیں تحقیق تم نے خود اقرار کیا تھا کہ حضور نبی ﷺ حق ہیں تمہاری کتاب میں (مذکور ہے) پھر تم اس کی پیروی نہیں کرتے ؟ اور یہ اس وقت کی بات ہے جب اہل مدینہ نے یہود سے حضور ﷺ کی پیروی کرنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا تو علمائے یہود نے کہا اس پر (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایمان لے آؤ ۔ پس وہ حق ہے پھر بعض نے بعض کو کہا کیا تم ان کو بیان کرتے ہو وہ کچھ جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کھولا ، واضح کیا تاکہ وہ (اصحاب رسول) تم اس کے ذریعے جھگڑا کریں ؟ ” لیحاجوکم “ کا معنی ہوگا تاکہ تمہاری یہ بات ان (اصحاب رسول) کے حق میں تمہارے خلاف حجت ہوجائے ، (آیت)” عندربکم “ آخرت میں ۔ اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو گناہوں پر ملنے والے عذاب کی خبر دی ، پس بعض نے بعض سے کہا کیا تم بیان کرتے ہو ، وہ کچھ جو اللہ تعالیٰ نے تم پر عذاب نازل کیا تاکہ وہ تمہارے سے تمہارے رب کے پاس جھگڑیں تاکہ (اس صورت حال کو) تمہارے برخلاف اپنے حق میں عنداللہ اکرام و انعام سمجھیں اور حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں یہ قول یہود قریظہ کا تھا ، بعض نے بعض کو کہا جب حضور ﷺ نے ان کو فرمایا ” اخوان القردۃ والخنازیر “ اے خنزیروں اور بندورں کے بھائیو ! تو وہ کہنے لگے ہمارے اس امر کی محمد ﷺ کو کس نے خبر دی ؟ لازما یہ راز کی بات تمہاری طرف سے اوٹ ہوئی ہے ۔ ” افلاتعقلون “۔
Top