Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 142
وَ مِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَةً وَّ فَرْشًا١ؕ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌۙ
وَ : اور مِنَ : سے الْاَنْعَامِ : چوپائے حَمُوْلَةً : بار بردار (بڑے بڑے) وَّفَرْشًا : چھوٹے قد کے / زمین سے لگے ہوئے كُلُوْا : کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : دیا تمہیں اللّٰهُ : اللہ وَلَا تَتَّبِعُوْا : اور نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اور مواشی بوجھ اٹھانے والے (بڑے قد کے) اور زمین سے لگے ہوئے (چھوٹے قد کے پیدا فرمائے) جو اللہ نے تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو۔ بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
رکوع نمبر 17 ۔ آیات 142 ۔ تا ۔ 145: اسرار و معارف : غیر اللہ کے نام کی نذر کا ابطال : بتوں اور غیر اللہ کے نام پر مختص کرنے کی ضرورت تب پیش آتی جب ان میں سے کوئی تخلیق میں بھی حصہ دار ہوتا چیزوں کو پیدا کرنے میں اللہ نے اس سے مدد حاصل کی ہوتی لیکن ایسا تو ہرگز نہیں بلکہ وہ اکیلا خالق ہے اور سب کائنات مخلوق یہ اسی کی قدرت کاملہ ہے کہ بعض میوہ دار بیلیں بنا دیں جو بلندی پر چڑھتی ہیں اور جس قدر بلند ہوں اچھا پھل آتا ہے جیسے انگور اور بعض زمین پر پھیلتی ہیں اگر بلندی پہ چڑھا دو تو پھل ہی نہ آئے یا آئے تو بوجھ ہی برداشت نہ کرسکیں جیسے خربوزہ وغیرہ اور اسی زمین پر درخت اگا دئیے جو بیلوں سے یکسر مختلف انداز رکھتے ہیں ساتھ میں کھیتیاں پیدا کردیں۔ مٹی ایک ہے موسم یکساں پانی ایک سا مگر باغوں میں جا کر اس کی صنعت کا اندازہ کرلو۔ کہیں زیتون پیدا کرکے بہترین روغن سے بھر دیا اور کہیں انار پیدا فرما کر بہترین جام سے پر کردیا بعض پھل بظاہر ایک سے مگر ذائقہ اور اثر مختلف بعض ظاہر بالکل مختلف مگر ذائقہ یا اثر ایک سا پھر گرمیوں سردیوں میں موسم کے اعتبار سے جسم انسانی کے لیے بہترین اثر رکھنے والے یہ سب تو اس کی قدرت کاملہ سے ہوتا ہے کیا یہ بت یا جن یا اللہ کے سوا جن کو پوجتے ہو یہ قانون فطرت میں کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں ہرگز نہیں تو پھر ان کے ناموں کی نذر کیسی۔ جب یہ پھل لائیں تو یہ سارا نظام تمہاری خدمت کے لیے ہے کھاؤ پیو استعمال کرو۔ مگر یاد رکھو اس نے امارت و غربت دے کر آزمایا ہے اگر کسی کے پاس باغات یا کھیت ہیں تو اسے غربا کو بھول نہ جانا چاہئے بلکہ اللہ کے نام پر انہیں بھی دو اور مھض نام و نمود کے لیے اللہ کا دیا ہوا رزق ضائع نہ کرو کہ فضول اور بےجا خرچ کرنے والے لوگ اللہ کو پسند نہیں جس طرح ان چیزوں اور ان کے اوصاف جداگانہ ہیں اسی طرح ہر طالب پر جداگانہ فیوضات کا نزول ہوتا ہے سب لوگ ایک سے نہیں بن سکتے مگر یہ سب کے لیے ضروری ہے کہ ان برکات پر اللہ کا شکر ادا کریں اور تفاخر میں مبتلا نہ ہوں اداء شکر یہ ہے کہ دوسروں تک پہنچانے کی سعی کریں۔ اس آیہ کریمہ سے بھی فصل اور کھیتی کی زکوۃ کا حکم ثابت کیا گیا ہے جس کی مقدار دوسری جگہ ارشاد ہے اسلام نے نظام زکوۃ ایسا خوبصورت بنایا ہے کہ محنت کرنے والے کے حق کو محفوظ رکھا ہے اگرچہ محنت پہ پھل تو اللہ ہی دیتے ہیں چناچہ کوئی خزانہ یا سونے چاندی کی کان مل جائے تو پانچواں حصہ زکوہ فرض ہوجاتی ہے مگر کھیتی اور باغ میں دسواں حصہ اگر پانی بھی دے تو بیسواں حصہ اسی طرح کاروبار یا ملازمت سے روپیہ پیسہ کمائے تو چالیسواں حصہ گو اس میں محنت اور بڑھ جاتی ہے۔ اور ساڑھے باون تولہ چاندی سے کم میں زکوۃ نہیں اسی طرح سو بکریوں اور پانچ اونٹوں سے کم میں بھی زکوۃ نہیں مگر زمین کا کوئی نصاب نہیں تھوڑا حاصل ہو یا بہت اس میں زکوۃ ہے۔ جس طرح وہ نباتات کا خالق ہے اسی طرح حیوانات بھی اس کی مخلوق ہیں چھوٹے ہوں یا بڑے کوئی سواری اور باربرداری کے لیے ہے تو کوئی گوشت یا دودھ دینے کے لیے یہ سب چیزیں اللہ کریم نے تمہاری خاطر پیدا فرمائی ہیں لہذا بلا تکلف کھاؤ پیو کہ تمہارا ہی رزق مقرر کی گئی ہیں مگر کھانے یا استعمال کا ڈھنگ وہ نہ اپناؤ جو شیطان سکھائے یہ اس لیے بھی درست نہیں کہ بنائے اور عطا تو رب کریم کرے مگر حکم اس پر شیطان کا مانو اور اس لیے بھی کہ وہ تمہارا بھی دشمن ہے ایسا واضھ دشمن جس کی دشمنی کسی دلیل کی محتاج نہیں تو وہ تمہیں کوئی اچھی بات نہیں سکھائے گا۔ جانور عموماً آٹھ کنبوں میں پیدا فرمائے گئے ہیں جن کا دودھ اور گوشت استعمال میں لایا جاتا ہے دو جوڑے بھیڑ ، بکری کی قسم سے اور دو گائے بھینس یا اونٹ کی قسم سے ۔ اب ان سے کہیے کہ ذرا یہ بتائیں ان کے نر حرام ہیں یا مادہ یا بچے یا وہ بچے جو ماداؤں کے پیٹ میں ہیں۔ لیکن کسی علمی دلیل سے بتاؤ محض اٹکل سے نہیں اگر تمہارے پاس کوئی صداقت ہے تو وہ ذریعہ بتاؤ جو تمہارے علم کا ہے کیا تم پر وحی آئی یا کسی نبی کی تعلیمات میں یہ بات ہے ان دونوں باتوں سے تو تم ہو ہی منکر پھر کیا اللہ کریم نے تمہارے ساتھ براہ راست بات کی ہے جب ایسا بھی نہیں تو اس حلت و حرمت اور رسومات کو عبادت قرار دینے پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں تو پھر یاد رکھو تم اللہ کی ذات پر بہتان تراشی کر رہے ہو کسی کام کو بطور عبادت مقرر کرنا تو اس کا کام ہے مگر تم اس کے حکم کے بغیر اپنی طرف سے مقرر کرکے جھوٹ باندھ رہے ہو بھلا اس سے بڑھ کر کیا ظلم ہوگا اور تمہارا یہ جھوٹ لوگوں کی گمراہی کا سبب بن رہا ہے یاد رکھو ایسے ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق ہی نہیں بخشتے اور وہ ہمیشہ کی بربادی میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔
Top