Anwar-ul-Bayan - Nooh : 5
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَهَارًاۙ
قَالَ رَبِّ : اس نے کہا اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نے دَعَوْتُ : میں نے پکارا قَوْمِيْ : اپنی قوم کو لَيْلًا وَّنَهَارًا : رات کو اور دن کو
جب لوگوں نے نہ مانا تو نوح نے خدا سے عرض کیا کہ پروردگار میں اپنی قوم کو رات دن بلاتا رہا
(71:5) قال۔ یہاں کلام میں اختصار کیا گیا ہے پورا کلام یوں تھا کہ :۔ نوح (علیہ السلام) نے تبلیغ کی۔ قوم نے تکذیب کی، نوح (علیہ السلام) برابر دعوت دیتے رہے مگر قوم انکار پر اڑی رہی۔ آخر نوح (علیہ السلام) نے کہا (تفسیر مظہری) فائدہ : صاحب ضیاء القرآن یون رقمطراز ہیں :۔ حضرت نوح (علیہ السلام) منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوگئے۔ آپ کو برا بھلا کہا جاتا۔ طعن و تشنیع کے تیر برسائے جاتے، افتراء و بہتان کے طوفان اٹھائے جاتے، حتی کہ آپ کو مار مار کر لہولہان کردیا جاتا۔ آپ پہروں بیہوش پڑے رہتے۔ آپ کو کسی مکان میں بند کردیا جاتا۔ لیکن اس جو روبنفا کے باوجود یہ اللہ کا پیغمبر ان ناہنجاروں کی اصلاح میں لگا رہا۔ اور بارگاہ الٰہی میں ان کے لئے دعائیں مانگتا رہا۔ اور شب روز ان کو تبلیغ بھی کرتے رہے۔ عام اجتماعوں میں بلند آواز سے انہیں وعظ فرماتے اور جب اپنی خلوت گاہوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ وہاں جاکر رازدارانہ طور پر اور چپکے چپکے ان کو گمراہیاں چھوڑنے کی تلقین کرتے اور یہ سلسلہ جلدی رہا۔ سالوں نہیں بلکہ تو صدیاں بیت گئیں۔ اور ان میں حق پذیری کے آثار نمایاں نہ ہوئے۔ بلکہ ان کی ہٹ دھرمی اور تعصب میں روز بروز اضافہ ہوتا ہی چلا گیا۔ جب آپ کو ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ نے اپنے پروردگار کے حضور میں اپنی روداد الم بیان کرنی شروع کی۔ عرض کرتے ہیں الٰہی ! ان کو سمجھانے میں میں نے دن رات ایک کردیا کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ لیکن جتنا میں ان کو حق کی طرف کھینچتا ہوں اتنا ہی وہ اس سے دور بھاگتے ہیں اور ان کی نفرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ رب اصل میں یاربی تھا۔ شروع سے حرف نداء اور آخر سے ی ضمیر واحد متکلم حذف ہوکر رب رہ گیا۔ لیلا ونھارا۔ دونوں دعوت کے ظرف ہیں۔ رات اور دن۔
Top