Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 77
فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب رَاَ : دیکھا الْقَمَرَ : چاند بَازِغًا : چمکتا ہوا قَالَ : بولے هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَ : غائب ہوگیا قَالَ : کہا لَئِنْ : اگر لَّمْ يَهْدِنِيْ : نہ ہدایت دے مجھے رَبِّيْ : میرا رب لَاَكُوْنَنَّ : تو میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْقَوْمِ : قوم۔ لوگ الضَّآلِّيْنَ : بھٹکنے والے
پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوگیا تو کہا اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ کرتا تو میں ضرور گمراہ لوگوں میں سے ہوتا،
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو مختلف عنوانات سے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اس کے ذیل میں ستارہ پرستوں سے بھی خطاب فرمایا۔ علامہ ابن کثیر دمشقی البدایہ والنہایہ ج 1 ص 401 میں لکھتے ہیں کہ دمشق اور اس کے آس پاس کے لوگ کو اکب سبعہ (سات ستاروں) کی عبادت کیا کرتے تھے۔ دمشق کے سات دروازے تھے اور وہاں میلے لگاتے تھے۔ اور بھینٹ اور نذرانے چڑھاتے تھے۔ (کو اکب سبعہ سے شمس۔ قمر۔ زحل۔ عطارد۔ مریخ۔ مشتری۔ اور زہرہ مراد ہیں) ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جو یہاں قرآن مجید میں مذکور ہے۔ اپنے علاقے سے ہجرت کرنے کے بعد دمشق کے آس پاس کہیں پیش آیا واقعہ یہ ہے کہ ان کو ایک چمکدار ستارہ نظر آیا صاحب روح المعانی ج 7 ص 198 نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ ستارہ مشتری تھا اور حضرت قتادہ ؓ کی طرف یوں منسوب کیا ہے کہ یہ ستارہ زہرہ تھا۔ بہر حال جو بھی ستارہ ہو خوب چمکدار اور روشن تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے دیکھ لیا تو اس وقت جو ستارہ پرست موجود تھے ان سے بطور فرض بحیثیت ایک الزام دینے والے مناظر کے یوں فرما دیا کہ یہ میرا رب ہے خود تو موحد تھے غیر اللہ کو رب نہیں مانتے تھے لیکن ان کو آخر میں قائل کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا، وہ ستارہ کچھ دیر کے بعد چھپ گیا تو آپ نے فرمایا کہ چھپ جانے والوں اور غروب ہونے والوں سے میں محبت نہیں کرسکتا، جو چھپ گیا وہ کہاں اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ابھی صاف بات نہ کہی حقیقت کی طرف اشارہ فرما دیا۔ اس کے بعد چاند نظر آیا جو بہ نسبت ستاروں کے بڑا تھا اور خوب زیادہ روشنی والا تھا۔ اس کو دیکھ کر اسی پہلے انداز کے مطابق فرما دیا کہ یہ میرا رب ہے پھر وہ بھی غروب ہوگیا تو اس مرتبہ فرمایا کہ اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں گمراہوں میں سے ہوجاتا۔ جب ستارہ غروب ہوا تھا تو فرمایا تھا کہ میں چھپ جانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ یعنی جو غائب ہوجائے اور ذاتی طور پر ایک حال پر باقی نہ رہ سکے میں اسے معبود نہیں مان سکتا، بات کو اپنے اوپر رکھ کر کہا جو گمراہوں کو دعوت دینے کا تبلیغی طریقہ ہے اس میں ان لوگوں پر تعریض تھی کہ تم لوگ عجیب ہو۔ جسے اپنے اوپر اختیار نہیں اس کو معبود بنائے ہوئے ہو، چونکہ پہلی مرتبہ ستارہ کے غروب ہونے پر وہ لوگ کسی درجہ میں قائل ہوچکے تھے اس لیے چاند کے غروب ہوجانے پر بات کا رخ بدل دیا۔ اس مرتبہ (لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ ) نہیں فرمایا بلکہ یوں فرمایا (لَءِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبّیِْ لَاَکُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ ) اس میں بھی بات کو اپنے اوپر رکھا اور فرمایا میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں گمراہوں میں سے ہوتا۔ اس میں اشارۃً یہ بیان فرما دیا کہ تم لوگ ستارہ پرستی کی وجہ سے گمراہ ہو پھر جب سورج نکلا وہ اپنی چمک اور روشنی میں ستاروں سے اور چاند سے بڑھ کر تھا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے کہا کہ یہ میرا رب ہے یہ پہلے دونوں چمک دار ستاروں سے بڑا ہے۔ چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی دنیا میں رہتے تھے۔ اور روزانہ آفتاب کو بھی دیکھتے تھے۔ اور انہیں معلوم تھا کہ آفتاب سے بڑا دوسرا کوئی ستارہ اپنے وجود مادی اور چمک دمک کے اعتبار سے نہیں ہے، اور اس کے بعد کوئی بڑا ستارہ طلوع ہونے والا نہیں لہٰذا ان کے پاس تیسری مرتبہ ستارہ پرستوں کو قائل کرنے کا موقع تھا اس لیے سورج کے غروب ہونے کا انتظار فرمایا، جب سورج بھی غروب ہوگیا تو بہت زور دار طریقہ پر فرما دیا۔ (یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓ ءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ ) (کہ اے میری قوم ! جن چیزوں کو تم شریک بناتے ہو میں ان چیزوں سے بری ہوں بیزار ہوں) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حاضرین کو بتایا کہ جن چیزوں کو تم معبود بناتے ہو کہ تم نے معبود حقیقی کی خدائی میں شریک کر رکھا ہے۔ تمہارا یہ طریقہ غلط ہے جن چیزوں کو تم پوچتے ہو یہ تو اسی خدا وحدہ لا شریک کی مخلوق ہیں جس کی مشیت اور ارادہ سے ان کا وجود ہے۔ اور جس کی مشیت و ارادہ سے یہ آتے جاتے ہیں نکلتے ہیں اور چھپتے ہیں۔ نیز یہ بھی بتادیا کہ میں شرک سے بری ہوں جس میں تم لگے ہوئے ہو تمہیں بھی شرک سے بیزار ہوجانا چاہئے۔ کیونکہ خالق جل مجدہ کے علاوہ کسی کو پوجنا راہ ہدایت کے خلاف ہے۔ اس بات کی طرف (لَءِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبّیِْ لَاَکُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ ) فرما کر اشارہ کرچکے تھے۔ کنایہ اور اشارہ کے بعد تصریح کا راستہ اختیار فرمایا اور واضح طور پر فرما دیا کہ (اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) میں نے اپنا رخ پھیر دیا اس ذات پاک کی طرف جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا۔ میں باطل معبودوں کی طرف متوجہ نہیں ہوں میں ان سے منہ موڑے ہوئے ہوں اور شرک کرنے والا نہیں ہوں۔
Top