Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 7
وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ١ؕ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًاۙ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا مَالِ : کیسا ہے ھٰذَا الرَّسُوْلِ : یہ رسول يَاْكُلُ : وہ کھاتا ہے الطَّعَامَ : کھانا وَيَمْشِيْ : چلتا (پھرتا) ہے فِي : میں الْاَسْوَاقِ : بازار (جمع) لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْهِ : اس کے ساتھ مَلَكٌ : کوئی فرشتہ فَيَكُوْنَ : کہ ہوتا وہ مَعَهٗ : اس کے ساتھ نَذِيْرًا : ڈرانے والا
انہوں نے کہا یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اسکے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا کہ وہ اس کیساتھ ڈرانے والا ہوتا
لغات القرآن : آیت نمبر 7 تا 16 : (مالھذالرسول) یہ کیسا رسول ہے ‘(یمشی) چلتا ہے ‘(الاسواق (سوق) بازار ‘(کنز) خزانہ ‘(مسحور) جادو میں پھنسا ہوا ‘(ضلوا) وہ گمراہ ہوگئے ‘ قصور (قصر) محل۔ محلات ‘(سعیر) بھڑکتی آگ ‘(تغیظ) غصہ سے جوش مارنا ‘(زفیر) غصہ سے نکلی ہوئی تیز آواز ‘ (ضیق) تنگ ‘ مقرنین (آپس میں جکڑے ہوئے) (ثبور) موت۔ ہلاکت ‘(مایشآء و ن) جو کچھ وہ چاہیں گے ‘(مسئولا) سوال کیا گیا۔ درخواست کا حق ‘۔ تشریح : آیت نمبر 7 تا 16 : سچی اور عظیم تحریک اور مضبوط دلائل کے سامنے شکست کھاجانے والے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ ہر شخص متاثر ہورہا ہے تو وہ طرح طرح کے اعتراضات ‘ الزامات اور ذاتیات پر اتر آتے ہیں چناچہ جب قرآن کریم کی واضح اور کھلی کھلی آیات اور نبی کریم ﷺ کی پر تاثیر شخصیت اور اعلیٰ ترین سیرت نے ہر شخص کو دین اسلام کی طرف متوجہ کرنا شروع کیا تو کفار و مشرکین نے قرآن کریم اور نبی کریم ﷺ کی ذات کو اعتراضات کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب جس کے سامنے وقت کے شاعر اور زباں داں عاجز اور بےبس ہو کر رہ گئے تھے اس کو پرانے زمانے کے قصے اور من گھڑت کہانیاں قرار دینے کا پروپیگنڈا شروع کردیا گیا۔ نبی کریم ﷺ کو شاعر ‘ مجنون ‘ کاہن اور نجانے کن کن القابات سے یاد کیا جانے لگا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر یہ واقعی اللہ کے نبی ہیں تو ان کا کوئی شاہانہ انداز ہونا چاہیے تھا ‘ خوب ٹھاٹ باٹ ہوتے ‘ آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ‘ مال و دولت کا زبردست خزانہ ہوتا جس کو وہ دونوں ہاتھوں سے خوب لٹاتے ‘ خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے یا کوئی خوبصورت ساباغ ہوتا جس میں ہر طرف سر سبزی و شادابی ہوتی۔ لیکن یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اوپر ایمان لانے والے غریب ‘ مسکین اور پھٹے حال لوگ ہیں جن کے نہ کھانے کو نہ پینے کو ہر طرف فقروفاقہ ہی فقرو فاقہ ہے۔ وہ یہاں تک گستاخی پر اتر آئے تھے کہ لوگوں سے کہتے کہ کیا تم ایسے شخص کی بات کا یقین کرنے چلے ہو جس پر کسی نے جادو کردیا ہے جس کی وجہ سے نعوذ باللہ ان کے ہوش و حواس بگڑ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! ذرا دیکھئے تو سہی یہ لوگ جو کل تک آپ کو صادق ‘ امین اور ذہین و سمجھ دار کہا کرتے تھے آج کیسی پھبتیاں کس رہے ہیں ‘ کیسے کیسے القابات دے رہے ہیں۔ فرمایا کہ آپ اس کی پروا نہ کیجئے کیونکہ یہ لوگ راستے سے بھٹک چکے ہیں نہ خود صراط مسقیم پر چلنا چاہتے ہیں اور نہ دوسروں کو اس سیدھی سچی راہ پر دیکھنا گوارا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! اگر اللہ چاہتا تو آپ کو حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرح دولت و سلطنت سے نواز سکتا تھا۔ وہ آپ کو ایسے سر سبز و شاداب اور ہرے بھرے باغات عطا کرسکتا تھا کہ جس کے نیچے سے نہریں جاری ہوتیں اور رہنے کے لئے عالی شان محلات اور حسین ترین مکانات ہوتے لیکن یہ سب کچھ مقصود نہیں ہے بلکہ آخرت کی زندگی کی طرف متوجہ کرنا اصل مقصد ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ جس بات کو ظاہر کررہے ہیں اور اعتراضات کررہے ہیں بات یہ نہیں ہے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور قیامت ‘ آخرت اور تمام اعمال کی جزا و سزا پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ دنیا کی زنذگی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارا مرنا جینا اسی دنیا تک محدود ہے۔ آخرت ‘ جنت ‘ جہنم اور اچھے برے اعمال کی سزا اور جزا کوئی چیز نہیں ہے۔ فرمایا کہ ان لوگوں کے اس طرح سوچنے سے حقائق تبدیل نہیں ہوں گے کیونکہ مرنے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ ہونا ہے اور پھر جب ان کو جہنم کی وہ آگ جوان کے لئے تیار کی گئی ہے اس میں جھونکا جائے گا اس وقت ان کی آنکھوں سے سارے پردے ہٹ جائیں گے۔ جہنم کی کیفیات کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب یہ جہنم کفار کو دیکھے گی تو وہ غیض و غضب کے ساتھ ایک ڈراونی اور ہیبت ناک آواز سے دھاڑنا شروع کردے گی اور اس کے جوش کا ٹھکانا نہ ہوگا۔ اس کی ہیبت ناک آوازوں کو یہ کفار و مشرکین خود اپنے کانوں سے سنیں گے۔ فرمایا کہ ان مجرمین کو جب زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کے تنگ و تاریک حصے میں پھینک دیاجائے گا تو پھر ان کی بےچینی اور گھبراہٹ اپنی انتہاؤں پر ہوگی۔ وہ روئیں گے ‘ چلائیں گے اور شدید ترین اذیت کی وجہ سے موت کو یاد کر کے کہیں گے کہ اس سے بہتر تھا کہ ہمیں موت آجاتی۔ ہمارا وجود مٹ جاتا اور اس کی اذیت و مصیبت سے جان چھوٹ جاتی۔ مگر اس وقت ان کا رونا ‘ چلانا ‘ چیخنا اور دھاڑنا ان کے کام نہ آسکے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج کے دن تم صرف ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں کو آواز دو ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے فرمایا ہے کہ آپ ذرا ان سے پوچھئیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وجہ سے جہنم کی جس اذیت میں مبتلا ہوگے یہ بہتر ہے یا وہ جنت بہتر ہے جس کا وعدہ اللہ نے ان لوگوں سے کیا ہوا ہے جوتقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ان جنتوں میں ان کو بہترین بدلہ اور جزاء عطا کی جائے گی جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان جنتیوں کا یہ حال ہوگا۔ کہ اہل جنت جس چیز کی خواہش اور تمنا کریں گے ان کو عطاکی جائے گی۔ یہ اللہ کا سچاوعدہ ہے جو پورا ہوکررہنے والا ہے۔
Top