Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 7
وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ١ؕ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًاۙ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا مَالِ : کیسا ہے ھٰذَا الرَّسُوْلِ : یہ رسول يَاْكُلُ : وہ کھاتا ہے الطَّعَامَ : کھانا وَيَمْشِيْ : چلتا (پھرتا) ہے فِي : میں الْاَسْوَاقِ : بازار (جمع) لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْهِ : اس کے ساتھ مَلَكٌ : کوئی فرشتہ فَيَكُوْنَ : کہ ہوتا وہ مَعَهٗ : اس کے ساتھ نَذِيْرًا : ڈرانے والا
اور کہتے ہیں یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس پر کیوں نازل نہیں کیا گیا اس کے پاس کوئی فرشتہ کہ اسکے ساتھ ہدایت کرنے کو رہتا ؟
(وقالو مال ھذا۔۔۔۔۔۔ 7۔ 8) وقالو مال ھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسقواق اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1 :۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : وقالو ان کے طعنوں میں سے ایک اور چیز کا ذکر کیا۔ قالوا میں ضمیر قریش کے لیے ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مشہور ملاقات ہوئی۔ سورة اسراء میں یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ ابن اسحاق نے سیرت میں اور دوسرے علمائنے ذکر کیا ہے : اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کے سردار عتبہ بن ربیعہ وغیرہ رسول اللہ ﷺ کو ملے اور عرض کیا : اے محمد ﷺ ! اگر تو سرداری کو پسند کرتا ہے تو ہم تجھے اپنے اوپر حاکم بنا دیتے ہیں، اگر تو مال سے محبت کرتا ہے تو ہم اپنے اموال میں سے آپ کے لیے جمع کیے دیتے ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے انکار کیا تو وہ حجت بازی کی طرف لوٹ آئے۔ انہوں نے کہا : کیا وجہ ہے تو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں ٹھہرتا ہے (1) جب کہ تو اللہ تعالیٰ کا رسول ﷺ ہے، انہوں نے کھانا کھانے پر عار دلائی کیونکہ انہوں نے یہ اندازہ کیا تھا کہ رسول ﷺ تو فرشتہ ہوتا ہے، بازار میں چلنے پر عار دلائی جب انہوں نے کسریٰ ، قیصر اور جابر بادشاہوں کو دیکھا کہ وہ تو بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ بازاروں میں ان سے ملتے جلتے انہیں بعض چیزوں کا حکم دیتے اور انہیں بعض چیزوں سے منع کرتے۔ انہوں نے کہا : یہ خواہش رکھتا ہے کہ ہمارا بادشاہ بن جائے تو پھر بادشاہوں کے طریقے کی کیوں مخالفت کرتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ساتھ جواب دیا، اور اپنے نبی پر اسے نازل کیا :” وما ارسلنا قبلک من المرسلین الا انھم لیا کلون الطعام ویسئون فی الاسواق “ آپ غم نہ کریں اور غمگین نہ ہوں، یہ ایسا عیب ہے جس کی عار آپ سے دور کردی گئی ہے۔ مسئلہ نمبر 2 :۔ تجارت اور طلب معاش کے لیے بازاروں میں جانا مباع ہے، نبی کریم ﷺ اپنی ضرورت کے لیے اور مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا امر اور اس کی دعوت یاد کرانے کے لیے داخل ہوتے، اور اپنی ذات کو قبائل پر پیش کرتے، ممکن ہے اللہ تعالیٰ انہیں حق کی طرف پھیر دے۔ بخاری شریف میں حضور ﷺ کی یہ صفت بیان کی گئی ہے :’ نہ ترش اور نہ سخت دل اور نہ ہی بازار میں شور و شغب کرن والے “۔ سورة اعراف میں یہ گزر چکی ہے۔ بازار کا ذکر کئی روایات میں مذکور ہے جس کا ذکر اہل صحیح نے کیا ہے۔ صحابہ کرام کی تجارت تو معروف ہے خصوصاً مہاجرین کی تجارت تو مشہور ہے جس طرح حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا : ہمارے مہاجر بھائیوں کو بازاروں میں خریدو فروخت مشغول رکھتی، اسے امام بخاری نے نقل کیا ہے، اس سورت میں اس مسئلہ پر مزید گفتگو ہوگی۔ ( 1 ؎ المحرر الوجیز) لو لا انزل الیہ ملک لولا، ھلا کے معنی میں ہے، فیکون معہ نذیرا یہ جواب استفہام ہے اویلقی الیہ کنز یہ محل رفع میں ہے معنی ہے ھلا یقی یعنی کیوں نہیں ان کی طرف بھیجا گیا خزانہ ؟ اوتکون لہ جنۃ یا کل منھا یا ان کے لیے کوئی باغ کیوں نہیں جس سے وہ کھاتے یا کل یاء کے ساتھ ہے مدنیوں، ابو عمر اور عاصم نے یاء کے ساتھ پڑھا ہے بقای کوفہ کے قراء نے نون کے ساتھ پڑھا ہے۔ دونوں قرایتیں اچھی ہیں جو صحیح معنی دیتی ہیں اگرچہ باء کے ساتھ قرات زیادہ واضح ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ کا اکیلے ذکر پہلے گزر چکا ہے تو آپ کی طرف ضمیر لوٹانا زیادہ واضح ہے۔ وقال الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسخورا اس کی تفسیر سورة الاسراء میں گزر چکی ہے۔ یہ بات کرنے والا بن زبعری تھا جس کا ذکر ماوردی نے کیا ہے۔
Top