Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 51
وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَنَبِّئْهُمْ : اور انہیں خبر دو (سنا دو ) عَنْ : سے۔ کا ضَيْفِ : مہمان اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اور ان کو ابراہیم کے مہمانوں کی بھی اطلاع دے دیجیے
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا تذکرہ، ان سے خوفزدہ ہونا اور ان کو بیٹے کی بشارت دینا ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا ذکر ہے، یہ مہمان اللہ جل شانہٗ کے بھیجے ہوئے فرشتے تھے جو اس لیے بھیجے گئے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے کی بشارت دیں اور اس پر بھی مامور تھے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کردیں، اس کا مفصل تذکرہ سورة ھود (ع 7) میں گزر چکا ہے اور سورة ذاریات میں بھی مذکور ہے، اور سورة عنکبوت رکوع 4 میں بھی ہے جب یہ فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور اندر داخل ہوگئے تو انہوں نے سلام کیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سلام کا جواب دیا (جیسا کہ سورة ھود اور سورة ذاریات میں تصریح ہے) یہ فرشتے چونکہ انسانوں کی صورتوں میں تھے اور اس سے پہلے ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی اس لیے اول تو یوں فرمایا کہ (قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ ) یعنی یہ حضرات ایسے ہیں جن سے کوئی جان پہچان نہیں، اور چونکہ انہیں انسان سمجھا تھا اس لیے ایک موٹا تازہ بچھڑا بھنا ہوا ضیافت کے طور پر ان کے سامنے لاکر رکھ دیا، وہ فرشتے تھے جو کھاتے پیتے نہیں ہیں اس لیے انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے جب یہ ماجرا دیکھا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مزید توحش ہوا اور اپنے دل میں ان کی طرف سے ڈر محسوس کرنے لگے اور صرف دل میں ہی نہیں زبان سے بھی (اِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُوْنَ ) (بےشک ہم تم سے ڈر رہے ہیں) مہمانوں نے کہا کہ آپ ڈرئیے نہیں ہم تمہیں ایک ایسے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جو صاحب علم ہوگا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر اس وقت زیادہ ہوچکی تھی خود بھی بوڑھے تھے اور ان کی بیوی بھی بوڑھی تھی جیسا کہ سورة ھود میں مذکر ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تعجب ہوا اور فرشتوں سے فرمایا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں مجھے اس حالت میں بیٹے کی خوشخبری دے رہے ہو یہ کیسی بشارت دے رہے ہو اس بشارت کا ظہور کس طرح ہوگا چونکہ بات اس انداز سے فرمائی تھی جس میں استفہام انکاری کی جھلک تھی اس لیے فرشتوں نے جواب میں کہا کہ ہم نے آپ کو امر واقعی کی بشارت دی ہے (ظاہری اسباب عادیہ کے اعتبار سے اچنبھے کی سی بات ہے لیکن جس نے بشارت بھیجی ہے اس کے لیے کچھ مشکل نہیں) لہٰذا آپ ان لوگوں میں سے نہ ہوجائیں جو امید نہیں رکھتے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے نا امیدی کے طور پر میرا سوال نہیں بلکہ اس اسباب ظاہرہ کے اعتبار سے کچھ عجیب سا معلوم ہو رہا ہے اس لیے یہ سوال زبان پر آگیا کہ اب اس حالت میں اولاد کس طرح ہوگی یہ بشارت حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور ان کے بعد ان کے بیٹے یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں تھی جیسا کہ سورة ھود میں مذکور ہے سورة صافات میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ جل شانہ سے دعا کی تھی کہ (رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) (کہ اے میرے رب مجھے صالحین میں سے ایک فرزند عطا فرما دے) اللہ نے فرمایا (فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ ) (کہ ہم نے انہیں حلم والے فرزند کی بشارت دی) بعض مفسرین نے فرمایا کہ سورة صافات کی مذکورہ آیت میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی پیدائش کی خوشخبری دی ہے اور سورة ھود اور سورة حجر اور سورة ذاریات میں حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش کی خوشخبری ہے اس پر مزید بحث انشاء اللہ تعالیٰ سورة صافات کی تفسیر میں آئے گی۔
Top