Al-Quran-al-Kareem - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم اس سے اچھی سلامتی کی دعا دو ، یا جواب میں وہی کہہ دو۔ بیشک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کا پورا حساب کرنے والا ہے۔
جہاد کا حکم دینے کے بعد اب صلح کے بعض احکام بیان فرمائے چناچہ فرمایا کہ اگر کفار کی طرف سے جنگ ختم کرنے اور صلح کرنے کی کوئی پیش کش کی جاتی ہے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا کم از کم اتنی پیش کش ضرور قبول کرو۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَاِنْ جَنَحُوْا للسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ) [ الأنفال : 61 ] ”اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تو بھی اس کی طرف مائل ہوجا اور اللہ پر بھروسہ کر۔“ ایک مصداق اس آیت کا یہ ہے کہ جہاد کے سفر کے دوران کوئی شخص اگر اطاعت کے اظہار کے لیے یا اسلام قبول کرنے کے اظہار کے لیے سلام کہے تو یہ کہہ کر اسے قتل مت کرو کہ تم مومن نہیں۔ (النساء : 94) اور ایک مصداق وہ ہے جو آیت کے صریح الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو اسے اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو۔ تحیۃ۔ حیاۃ میں سے باب تفعیل کا مصدر ہے۔ زندگی کی یا سلامتی کی دعا دینا مراد سلام ہے۔ بہتر جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ“ کے جواب میں ”وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ“ کا اضافہ اور ”السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ“ کے جواب میں ”وَ بَرَکَاتُہٗ“ کا اضافہ کردیا جائے، لیکن اگر کوئی شخص یہ سارے الفاظ بول دے تو انھی کے ساتھ جواب دیا جائے۔ ”ومغفرتہ یا ورضوانہ“ وغیرہ کا اضافہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہر لفظ کے اضافے کے ساتھ دس نیکیاں زیادہ ہوتی جائیں گی۔ [ أحمد : 4؍439، 440، 19970 ] گویا کوئی شخص جتنا سلام کہے اتنا جواب دینا فرض ہے، زائد مستحب ہے۔
Top