Al-Quran-al-Kareem - An-Nisaa : 65
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
فَلَا وَرَبِّكَ : پس قسم ہے آپ کے رب کی لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ مومن نہ ہوں گے حَتّٰي : جب تک يُحَكِّمُوْكَ : آپ کو منصف بنائیں فِيْمَا : اس میں جو شَجَرَ : جھگڑا اٹھے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر لَا يَجِدُوْا : وہ نہ پائیں فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں حَرَجًا : کوئی تنگی مِّمَّا : اس سے جو قَضَيْتَ : آپ فیصلہ کریں وَيُسَلِّمُوْا : اور تسلیم کرلیں تَسْلِيْمًا : خوشی سے
پس نہیں ! تیرے رب کی قسم ہے ! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑجائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ۔۔ : اس آیت کی شان نزول میں ایک مسلمان اور یہودی کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے فیصلہ کروانے کے بعد عمر ؓ سے فیصلہ کروانے گیا تھا، جس پر عمر ؓ نے اس مسلمان کی گردن اڑا دی تھی۔ مگر یہ واقعہ سنداً صحیح نہیں ہے، جیسا کہ حافظ ابن کثیر ؓ نے بھی وضاحت کی ہے، ویسے رسول اللہ ﷺ صحابہ کے اصرار کے باوجود منافقوں کی بڑی بڑی گستاخیوں پر نہ انھیں قتل کرتے، نہ قتل کی اجازت دیتے اور وجہ یہ بتاتے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ محمد ﷺ اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ [ مسلم، الزکوٰۃ، باب ذکر الخوارج : 1063 ] 2 عبداللہ بن زبیر ؓ راوی ہیں کہ زبیر ؓ اور ایک انصاری کے درمیان حرہ کی نالیوں میں جھگڑا ہوگیا۔ زبیر ؓ کی زمین اوپر کی جانب تھی، جہاں سے پانی آتا تھا، رسول اللہ ﷺ نے زبیر ؓ سے انصاری کے حق میں رعایت کی سفارش کی اور فرمایا : ”اپنے باغ کو پانی دے کر اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو۔“ اس پر انصاری نے کہا : ”یہ اس لیے کہ زبیر (t) آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔“ مطلب یہ تھا کہ آپ نے اس رشتے کی رعایت کی ہے، اس پر آپ ﷺ کو تکلیف محسوس ہوئی اور فرمایا : ”زبیر ! اپنے باغ کو اتناپانی دو کہ منڈیروں تک چڑھ جائے، پھر اس کے لیے چھوڑ دو ، پہلے آپ نے انصاری کی سفارش کی تھی، اب جب اس نے آپ کو غصہ دلایا تو آپ نے سفارش کے بجائے فیصلہ کیا اور زبیر ؓ کو ان کا پورا حق دلوایا۔ زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ آیت : (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ) اس بارے میں نازل ہوئی۔ [ مسلم، الفضائل، باب وجوب اتباعہ، ص : 2357۔ بخاری : 4585 ] حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر مومن ہونے کی تین شرطیں بیان کی ہیں، پہلی یہ کہ کسی بھی جھگڑے کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی اور کے پاس نہ لے جایا جائے۔ [ دیکھیے النور : 51۔ الأحزاب : 36 ] دوسری یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلے پر دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کی جائے اور تیسری یہ کہ صاف اعلان کر کے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے۔ اب آپ ﷺ کی وفات کے بعد قرآن و سنت سے فیصلہ طلب کیا جائے گا۔ اس سے منکرین حدیث کے ایمان کی حقیقت پوری طرح کھل جاتی ہے۔ یہ آیت منکرین حدیث کے علاوہ ان لوگوں کے لیے بھی لمحہ فکر یہ ہے جن کے امام یا پیر کے خلاف کوئی آیت یا حدیث آجائے تو وہ صرف دل میں تنگی ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ ماننے سے صاف انکار کردیتے ہیں کہ کیا ہمارے امام کو اس آیت و حدیث کا علم نہ تھا، یا پھر اس کی تاویل کرنے یا اسے منسوخ قرار دینے کے لیے اپنی ساری قوت صرف کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت کے صریح الفاظ کے مطابق نبی ﷺ کے فیصلے کے خلاف دل میں ذرہ بھر تنگی یا نا پسندیدگی محسوس کی جائے تو یہ ایمان کے منافی ہے۔
Top