Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 51
وَ لَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ نَّذِیْرًا٘ۖ
وَلَوْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہتے لَبَعَثْنَا : تو ہم بھیجدیتے فِيْ : میں كُلِّ قَرْيَةٍ : ہر بستی نَّذِيْرًا : ایک ڈرانے والا
اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ڈرانے والا بھیج دیتے
51۔ 52:۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے ‘ مینہ کے ذکر کے بعد قرآن شریف کا ذکر جو فرمایا اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح مینہ کا پانی عام فائدے کے لیے برستا ہے لیکن اس سے فائدہ فقط اچھی زمین کو پہنچتا ہے اور بری زمین میں وہ پانی بالکل رائیگاں جاتا ہے اسی طرح قرآن کی نصیحت اگرچہ عام لوگوں کے فائدے کے لیے ہے لیکن اس نصیحت سے فائدہ فقط ان ہی لوگوں کو پہنچتا ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں نیک ٹھہر چکے ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں برے قرار پاچکے ہیں ‘ ان کے حق میں قرآن کی نصیحت اسی طرح رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے ‘ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے اگر اللہ چاہتا تو تم پر سے نبوت کا بوجھ ہلکا کر کے ہر ایک بستی میں خدا رسول بھیج دیتا ‘ لیکن اس صورت میں تمہارا عقبیٰ کا اجر کم ہوجاتا اس لیے تمہارا عقبیٰ کا اجر بڑھانے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے تم کو ہر ایک قوم کا رسول بنایا ہے ‘ تم ان مشرکین مکہ کی کوئی بےہودہ بات نہ مانو اور یہ سمجھ لو کہ ہر ایک بستی میں بھی اگر رسول بھیجا جاتا تو راہ راست پر وہی لوگ آتے جن کا راہ راست پر آنا ‘ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں قرار پاچکا ہے۔ اس لیے اے رسول اللہ کے تم بڑی کوشش سے ان لوگوں کو قرآن کی آیتیں سناتے رہو ‘ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت کئی جگہ گزر چکی 1 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ میں لوگوں کو کو لیاں بھر بھر کر انہیں دوزخ کی آگ میں گرنے سے روکتا ہوں مگر لوگ کیڑے پتنگوں کی طرح آگ میں گرنے کی جرأت کرتے ہیں ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا کی تعمیل کس طرح مستعدی سے فرماتے تھے کیونکہ ظاہر میں اگرچہ آپ لوگوں کی کو لیاں نہیں بھرتے تھے ‘ لیکن دلی مضبوط ارادہ سے آپ نے اس طرح کی کوشش قرآن کی مخالفت سے روکنے میں کی جس طرح کوئی شخص کسی کی کو لی بھر کر اس کو برے کام سے روکتا ہے ‘ مشرکین مکہ اللہ کے رسول ﷺ سے کہا کرتے تھے کہ آپ برس دن ہمارے بتوں کی پوجا کرلیا کریں اور ہم برس دن تک اللہ کی عبادت کرلیا کریں گے تو پھر آپ کا اور ہمارا جھگڑا باقی نہ رہے گا ‘ مشرکین کی ایسی باتوں کی طرف التفات نہ کرنے کا مطلب فَلَاتُطِعِ الْکِفٰرِیْنَ سے ادا فرمایا گیا ہے ‘ چناچہ تفصیل اس کی سورة الزمر میں آوے گی۔ (1 ؎ چند صفحے قبل بھی اس کا حوالہ گزر چکا ہے )
Top