Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 35
وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَا١ۚ اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا
وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو شِقَاقَ : ضد (کشمکش بَيْنِهِمَا : ان کے درمیان فَابْعَثُوْا : تو مقرر کردو حَكَمًا : ایک منصف مِّنْ : سے اَھْلِهٖ : مرد کا خاندان وَحَكَمًا : اور ایک منصف مِّنْ : سے اَھْلِھَا : عورت کا خاندان اِنْ : اگر يُّرِيْدَآ : دونوں چاہیں گے اِصْلَاحًا : صلح کرانا يُّوَفِّقِ : موافقت کردے گا اللّٰهُ : اللہ بَيْنَهُمَا : ان دونوں میں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : بڑا جاننے والا خَبِيْرًا : بہت باخبر
اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے تو ایک منصف مرد کے خاندان سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو وہ اگر صلح کر دینی چاہیں گے تو خدا ان میں موافقت پیدا کر دے گا کچھ شک نہیں کہ خدا سب کچھ جانتا اور سب باتوں سے خبردار ہے
قول باری ہے (وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکمامن اھلہ وحکما من اھلھا، اور اگر تمہیں کہیں میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات بگڑجانے کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو) اس آیت کے مخاطب کون ہیں اس بارے میں اختلاف رائے ہے ، سعید بن جبیر اور ضحاک کا قول ہے یہ حاکم اور سلطان ہے جس کے پاس میاں بیوی اپنامقدمہ لے کرجاتے ہیں سدی کا قول ہے یہ میاں اور بیوی ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (واللاتی تخافون نشوزھن) میں شوہروں کے خطاب ہے ، کیونکہ آیت کے تسلسل و ترتیب میں اس پر دلالت موجود ہے ، جو قول باری (واھجروھن فی المضاجع) کی صورت میں ہے اور قول باری (وان خفتم شقاق بینھما) میں بہتر بات یہی ہے یہ اس حاکم کو خطاب ہوجومقدمے کے دونوں فریق کے جھگڑے پر غور کرتا اور ظلم وتعدی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ شوہر کا معاملہ بیان کرنے کے بعد اسے اپنی بیوی کو سمجھانے ، نصیحت کرنے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم ملا، پھر باز نہ آنے پر خواب گاہ میں علیحدگی اختیار کرنے کے لیے کہا گیا اور پھر بھی باز نہ آنے اور سرکشی پر قائم رہنے کی صورت میں پٹائی کا حکم دیا گیا ہے اس کے بعد شوہر کے لیے اس کے سو اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا، کہ وہ اپنامقدمہ فیصلے کے لیے اس شخص کے پاس لے جائے جوان دونوں میں سے مظلوم کی داد رسی کردے اور اس کا فیصلہ دونوں پر نافذ ہوجائے۔ شعبہ نے عمرو بن مرہ سے نقل کیا ہے انہوں نے سعید بن جبیر سے حکمین کے متعلق دریافت کیا توا نہیں غصہ آگیا کہنے لگے کہ میں تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا (دراصل سعید کو غلط فہمی ہوئی کہ سائل ان سے جنگ صفین کے نتیجے میں مقرر ہونے والے حکمین کے متعلق پوچھ رہا ہے۔ عمروبن مرہ نے کہا میں میاں بیوی کا جھگڑا نمٹانے والے حکمین کے متعلق معلوم کرنا چاہتاہوں یہ سن کر سعید بن جبیر نے فرمایا جب میاں بیوی کے درمیان لے دے شروع ہوجائے تورشتہ داروں کو چاہیے کہ دوحکم مقرر کردیں۔ یہ دونوں اس فریق کے پاس جائیں جس کی طرف جھگڑے کی ابتداء ہوئی تھی اور اسے سمجھائیں بجھائیں اگر وہ ان کی بات مان لے توفبھا، ورنہ پھر دوسرے فریق کے پاس جائیں اگر وہ ان کی بات سن کر ان کے حسب منشاء رویہ اپنانے پر رضامند ہوجائے توٹھیک ورنہ ان دونوں کے بارے میں وہ اپنافیصلہ سنادیں ، ان کا جو فیصلہ ہوگا وہ جائز ہوگا اور درست ہوگا۔ عبدالوہاب نے روایت کی ہ یکہ انہیں ایوب نے سعید بن جبیر سے خلع کی خواہش مند بیوی کے متعلق بیان کیا کہ شوہر پہلے اسے سمجھائے اگر وہ باز آجاے توٹھیک ہے ورنہ اس سے علیحدہ رہناشروع کردے اگر پھر بھی باز نہ آئے تو اس کی پٹائی کرے اور اگر پھر بھی وہ اپناسابقہ رویہ ترک نہ کرے توسلطان کے پاس اس کا معاملہ لے جائے ، سلطان خاوند اور بیوی کے رشتہ داروں میں سے ایک ایک حکم مقرر کردے گا۔ بیوی کے خاندان سے مقرر ہونے والاحکم شوہر کی کارگذاریاں گنوائے گا اور شوہر کے خاندان سے مقرر ہونے والاحکم بیوی کی کارگذاریاں بیا کرے گا۔ ان بیانات کی روشنی میں جس طریق کی طرف سے زیادہ ظلم نظر آئے گا اسے حکمین سلطان کے حوالے کردیں گے سلطان اسے ظلم کرنے سے روک دے گا، اگر عورت کی سرکشی ثابت ہوجائے گی تو مرد کو خلع کرلینے کا حکم دے دیاجائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ طریق کار اس لحاظ سے عنین (نامرد) مجبوب (جس کا عضو تناسل کٹ چکا ہو) اور ایلاء کے سلسلے میں اختیار کیے جانے والے طریق کار کی نظیر ہے کہ ان کے معاملات پر بھی سلطان سوچ بچار کرتا اور اللہ کے حکم سے بموجب ان کا فیصلہ کرتا ہے۔ جب میاں بیوی میں اختلافات بڑھ جائیں اور شوہر اپنی بیوی کی سرکشی اور نافرمانی کی شکایت کرے اور بیوی شوہر کے ظلم وستم اور اپنے حقوق کی پائمالی کی شاکی ہوتوایسی صورت میں حاکم میاں بیوی دونوں کے رشتہ داروں میں سے ایک ایک حکم مقرر کردے گاتا کہ وہ دونوں مل کر ان دونوں کے معاملات کی چھان بین کردیں اور اس کے نتائج سے حاکم کو آگاہ کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے خاندان سے ایک ایک حکم لینے کا حکم اس لیے دیاتا کہ ان دونوں کے اجنبی ہونے کی صورت میں کسی ایک کی طرف ان کے میلان کی بدگمانی پیدانہ ہوجائے لیکن جب ایک حکم مرد کی طرف سے اور دوسرا عورت کی طرف سے مقرر ہوگاتوایسی بدگمانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہر حکم اپنے فریق کی طرف سے بات کرے گا۔ قول باری (فابعثوا حکما من اھلہ وحکما من اھلھا) کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ شوہر کے خاندان سے مقرر ہونے والاحکم شوہر کا وکیل ہوگا اور بیوی کے خاندان والاحکم بیوی کا وکیل ہوگا، گویا اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا کہ شوہر کی طرف سے ایک شخص کو اوربیوی کی طرف سے ایک شخص کو حکم مقرر کردو۔ یہ بات ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حکمین کو یہ اختیار ہے کہ میاں بیوی کے کہے بغیر وہ اگر چاہیں تو دونوں کو یکجا رکھیں اور اگر چاہیں توانمیں علیحدگی کرادیں۔ اسماعیل بن اسحاق کا خیال ہے کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب سے یہ منقول ہے کہ ان حضرات کے حکمین کے متعلق کوئی علم نہیں تھا، ابوبکرجصاص نے کہا کہ یہ ان حضرات کے خلاف ایک جھوٹا بیان ہے انسان کو اپنی زبان کی حفاظت کی کس قدر ضرورت ہے خاص طور پر جب وہ اہل علم کی طرف سے کوئی بات نقل کررہاہو۔ قول باری ہے (مایلفظ من قول الالدیہ رقیب عتید) وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالتا مگر یہ کہ اس کے آس پاس ہی ایک تاک میں لگا رہنے والاتیار ہے) جس شخص کو اس بات کا علم ہو کہ اس کی کہی ہوئی باتوں پر مواخذہ بھی ہوگا، اس کی باتیں کم ہوتی ہیں اور جن باتوں سے اس کا تعلق نہیں ہوتا انکے متعلق وہ سوچ سمجھ کر اپنی زبان کھولتا ہے۔ زوجین کے درمیان اختلافات اور کشیدگی پیدا ہونے کی صورت میں حکمین مقرر کرنا کتاب اللہ کامنصوص حکم ہے تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ان حضرات کی نظروں سے یہ مخفی رہ جائے جبکہ علم دین اور شریعت کے معاملات میں ان حضرات کو جواونچا مقام حاصل ہے وہ سب پر عیاں ہے ، بس بات صرف اتنی ہے کہ ان حضرات کے نزدیک حکمین کو زوجین کے وکلا کا کردار اداکرنا چاہیے ایک شوہر کا وکیل بن جائے اور دوسرا بیوی کا، حضرت علی ؓ سے اسی طرح کی روایت ہے۔ ابن عیینہ نے ایوب سے انہوں نے ابن سیرین سے انہوں نے عبیدہ سے روایت کی ہے حضرت علی کے پاس ایک دفعہ ایک مرد اور اس کی بیوی آئی ہر فریق کی حمایت میں بھی لوگوں کی ایک ایک ٹولی ساتھ تھی ، آپ نے ان کے متعلق پوچھاتولوگوں نے بتایا کہ ان دونوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ یہ سن کر آپ نے آیت (فابعثوا حکما من اھلہ، ، ایک حکم مرد کے رشتہ داروں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کردو اگر وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا) ۔ پھر حضرت علی نے دونوں حکم سے مخاطب ہوکر فرمایا تمہیں معلوم بھی ہے کہ تمہاری کیا ذمہ داری ہے تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ تم ان دونوں کے عقد زوجیت میں باقی رکھناچاہو تو باقی رہنے دو اوراگر نہیں علیحدہ کردینے میں تمہیں مصلحت نظر آئے توا نہیں علیحدہ کردو۔ یہ سن کر عورت نے کہا میں اللہ کی کتاب کے فیصلے پر راضی ہوں، مرد کہنے لگاجہاں تک علیحدگی کا تعلق ہے میں اس کے لیے رضامند نہیں ہوں حضرت علی نے یہ سن کر مرد سے فرمایا، تم جھوٹ کہتے ہو بخدا تم میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر نہیں جاسکتے جب تک تم اس بات کا اقرار نہ کروجس کا تمہاری بیوی نے اقرار کیا ہے۔ حضرت علی نے یہ واضح کردیا کہ حکمین کا قول میاں بیوی کی رضامندی پر منحصر ہے۔ ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ حکمین کو ان دونوں کے درمیان اس وقت تک علیحدگی کرانے کا اختیار نیہں ہے جب تک شوہراس پر رضامند نہ ہوجائے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر شوہر بیوی کے ساتھ بدسلوکی کا اقرار کرے تو بھی ان دونوں کے درمیان علیحدگی نہیں کرائی جاسکتی۔ اور حکمین کے فیصلے سے قبل حاکم بھی شوہر کو طلاق دینے پر مجبور نہیں کرسکتا، اسی طرح اگر عورت سرکشی اور نافرمانی کا اقرار کرے توحاکم اس سے خلع کر الینے پر مجبور نہیں کرسکتا، اور نہ ہی مہر کی واپسی کے لیے اس پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ جب حکمین یعنی ثالثوں کے تقرر سے پہلے میاں بیوی دونوں کے متعلق مذکورہ بالاحکم ہے ، تو ان کے تقرر کے بعد بھی یہی ہوناچا ہے کہ شوہر کی رضامندی اور اس کی طرف سے اس معاملے کی حرکات کے لیے وکیل بنائے بغیرحکمین کا اس کی بیوی کو طلاق دے دیناجائز نہ ہو، اس طرح عورت کی رضامندی کے بغیر اس کی ملکیت سے مہر کی رقم نکلوا بھی درست نہ ہو۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ حکمین کی طرف سے خلع کرانے کا عمل زوجین کی رضامندی کے ساتھ ہی درست ہوسکتا ہے ہمارے اصحاب کا یہ بھی قول ہے کہ میاں بیوی کی رضامندی کے بغیر حکمین کو ان دونوں کے درمیان تفریق کا اختیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب حاکم وقت کو بھی اس کا اختیار نہیں ہے توحکمین کو اس کا اختیار کیسے ہوسکتا ہے حکمین تو دونوں کے وکیل ہوتے ہیں ایک حکم بیوی کو وکیل ہوتا ہے اور دوسرا شوہر کا اگر شوہر نے خلع یاتفریق کے سلسلے میں معاملہ اس کے سپرد کردیاہو۔ اسماعیل کا قول ہے کہ وکیل حکم یعنی ثالت نہیں ہوتاجوشخص بھی حکم بنے گا شوہر پر اس کا حکم چلنا جائز ہوگاخواہ شوہر اس کے حکم کو تسلیم کرنے سے انکارہی کیوں نہ کرتا رہے۔ اسماعیل کا یہ قول ایک مغالطہ ہے اس لیے کہ اس نے جو وجہ بیان کی ہے وہ وکالت کے معنی کے منافی نہیں ہے کیونکہ جب کوئی کسی کا وکیل بن جاتا ہے تو وکالت سے متعلقہ معاملے میں موکل پر اس کا حکم چلنا جائز ہوجاتا ہے ، اس لیے میاں پر حکمین پرچلنے کا جواز نہیں وکالت کے دائرے سے خارج نہیں کرتا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو شخص کسی تیسرے آدمی کو اپنے جھگڑے کے تصیفے کے لیے حکم یاثالث بنالیتے ہیں اور اس صورت میں جھگڑا طے کرانے کے لحاظ سے اس ثالث کے حیثیت ان دونوں کے وکیل کی ہوتی ہے پھر جب ثالث کوئی فیصلہ کردیتا ہے ان دونوں کی آپس میں صلح ہوجاتی ہے اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ زوجین کی ناچاقی کے سلسلے میں مقرر ہونے والے ثالثوں کی کاروائی اور ان کی کوشش وکالت کے مفہوم سے کسی طرح بھی جدا نہیں ہوتی ، دو شخصوں کے جھگڑے کے سلسلے میں ثالث کا فیصلہ ایک لحاظ سے حاکم کے فیصلے کے مشابہ ہوتا ہے۔ اور ایک لحاظ سے وکالت کے مشابہ ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے جبکہ میاں بیوی کی ناچاقی کے سلسلے میں تگ ودو کرنے والے ثالثوں کے کردار کی بنیاد خالص وکالت کے مفہوم پر ہوتی ہے جس طرح وکالت کی دیگر صورتوں کے اندر ہوتا ہے۔ اسماعیل نے کہا کہ وکیل حکم یاثالث نہیں کہلاسکتا حالانکہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح اسماعیل نے سوچا ہے کیونکہ اس خاص صورت میں وکیل کو ثالث کا نام محض اس لیے دیا گیا ہے تاکہ اس کی ذریعے اس وکالت کی اور تاکید ہوجائے جو اس کے سپرد کی گئی ہے۔ اسماعیل نے کہا ہے کہ حکمین کے حکم کامیاں بیوی دونوں پرچلنا جائز ہوتا ہے خواہ وہ اسے تسلیم کرنے سے انکار ہی کیوں نہ کرتے رہیں ، یہاں بھی بات اس طرح نہیں ہے ، اگر میاں بیوی انکار کردیں توحکمین کا حکم ان پر چل نہیں سکتا کیونکہ یہ دونوں وکیل ہوتے ہیں بلکہ حاکم کو ضرورت پیش آتی ہے کہ وہ ان دونوں کو میاں بیوی کے معاملے میں غور کرنے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہے کہ ان دونوں میں سے حق کے راستے سے کون ہٹا ہوا ہے۔ پھر اپنی جمع شدہ معلومات کو حاکم کے سامنے پیش کردیں اور اگر اس بارے میں دونوں کے درمیان اتفاق رائے ہوتوان کی بات قبول کرلی جائے گی اور میاں بیوی میں سے جو بھی ظالم ثابت ہوگا حاکم اسے ظلم کرنے سے روک دے گا۔ اس لیے یہ ممکن کہ انہیں اس بنا پر حکمین کا نام دیا گیا ہو کہ زوجین کے متعلق ان کا قول قبول کرلیاجاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہو کہ جب زوجین کی طرف سے وکالت کرنے کا معاملہ ان کے سپرد کردیاجاتا ہے اور اسے ان کی اپنی صوابدید اور معاملے کو سلجھانے کے لیے ان کی کوشش اور تگ ودود پر چھوڑ دیاجاتا ہے توخلع کرانے کی بنا پر انہیں حکمین کہا گیا ہوکیون کہ حکم یعنی ثالت کا اسم معاملے کو سلجھانے کے لیے تگ ودو کرنے نیز فیصلے کو عدل وانصاف کے ساتھ نافذ کرانے کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ جب اس معاملے کو ان کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہو اور انہوں نے میاں بیوی کو رشتہ دار ازدواج میں بندھنے رہنے یا ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلینے کے سلسلے میں اپنافیصلہ سنادیا ہو اور وہ فیصلہ نافذ بھی ہوگیا ہوتوعین ممکن ہے کہ اس بنا پر انہیں حکمین کے نام سے موسوم کیا گیا ہو، جس معاملے کو سلجھانے کا کام ان کے سپرد کیا گیا تھا اس کے متعلق خیرواصلاح کے نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے کسی فیصلے پر پہنچ جانے کے بعد زوجین پرس کے نفاظ کے سارے عمل میں ان کی حیثیت حاکم وقت کی حیثیت کے مشابہ ہے اسی بنا پر انہیں حکمین کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ زوجین کے وکیل ہی ہوں گے کیونکہ یہ بات تو بالکل درست نہیں ہے کہ زوجین کی اجازت کے بغیر کسی کو ان پر خلع اور طلاق جیسے امور کی ولایت حاصل ہوجائے ، اسماعیل کا خیال کہ حضرت علی سے مروی واقعہ میں جس کا گذشتہ سطور میں ذکر ہوچکا ہے شوہر کی تردید آپ نے اس لیے کی تھی کہ وہ کتاب اللہ کے فیصلے پر رضامندی نہیں ہوا، تھا، حضرت علی نے اس کی گرفت اس لیے نہیں کی تھی کہ اس نے وکیل نہیں بنایاتھابل کہ اس لیے گرفت کی تھی کہ وہ کتاب اللہ کے فیصلے پر ضامند نہیں ہوا تھا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں یہ بات اس طرح نہیں ہے کہ کیونکہ اس شخص نے جب یہ کہاجہاں تک علیحدگی کا تعلق ہے تو اس کے لیے میں رضامند نہیں ہوں، تو حضرت علی نے جواب میں فرمایا تھا کہ تم جھوٹ کہتے ہو، بخدا اب تم میرے ہاتھ سے نکل کر نہیں جاسکتے جب تک اس طرح اقرار نہ کرو جس طرح تمہاری بیوی نے اقرار کیا ہے ۔ حضر ت علی نے علیحدگی کے معاملہ میں وکیل مقرر نہ کرنے پرس کی سرزنش کی اور اسے اس معاملے کے لیے وکیل پکڑنے کا حکم دیا، اس شخص نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ میں کتاب اللہ کے فیصلے پر رضامند نہیں ہوں، کہ پھر حضرت علی اس کی سرزنش کرتے ، اس نے تو یہ کہا تھا کہ میں علیحدگی پر رضامند نہیں ہوں جبکہ اس کی بیوی تحکیم پر رضامند ہوگئی تھی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بیوی سے علیحدگی کا فیصلہ شوہر پر اس وقت تک نافذ نہیں ہوسکتا جب تک شوہر نے اس کی وکالت کا معاملہ سپرد نہ کردیا ہو۔ اسماعیل کا قول ہے جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، (ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما) توہ میں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حکمین اپناحکم اور فیصلہ نافذ کرائیں گے اور اگر انہوں نے فیصلہ کرتے وقت حق وانصآف کو پیش نظر رکھا تو اللہ تعالیٰ انہیں صحیح فیصلے کی توفیق عطا فرمائے گا۔ اسماعیل کا کہنا ہے کہ ایسی بات وکیلوں کو نہیں کہی جاتی کیونکہ وکیل کے لیے اس معاملے کے دائرے سے باہر قدم نکالنا درست نہیں ہوتا جس کے لیے اسے وکیل مقرر کیا گیا ہو۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل نے جو کچھ کہا ہے وہ وکالت کے مفہوم اور معنی کے منافی نہیں ہے کیونکہ جب دونوں وکیلوں کو یہ معاملہ اس طرح سپرد کردیاجائے کہ وہ خیروصلاح کے حصول کی تگ ودو کے بعد اپنی صوابدید کے مطابق زوجین کے رشتہ ازدواج کو باقی رکھنے یا اسے منقطع کرنے کا جو بھی فیصلہ کریں اس میں ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی سمجھ بوجھ سے پوری طرح کام لے کر فیصلے کا اعلان کریں۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ اگر ان کی نیتیں درست ہوں گی تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں صلاح وخیر کی توفیق عطا فرمائے گا، اس لیے وکیل اور حکم یعنی ثالث میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ہر وہ شخص جسے اس قسم کا کوئی معاملہ بھی خیروصلاح کو پیش نظر رکھتے ہوئے سلجھانے کے لیے حوالے کردیاجائے اسے توفیق ایزدی کی وہ صفت ضرور لاحق ہوجاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث میں بیان کی ہے۔ اسماعیل نے مزید کہا کہ حضرت ابن عباس ، مجاہد، ابوسلمہ، طاؤس، اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے حکمین جو بھی فیصلہ کردیں وہ درست ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ایسا ہی ہے ، لیکن ان حضرات کا یہ قول اسماعیل کے قول کی موافقت پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ ان حضرات نے یہ نہیں فرمایا کہ خلع اور تفریق کے سلسلے میں زوجین کی رضامندی کے بغیر حکمین کی کاروائی درست ہوگی، بلکہ یہاں اس بات کی گنجائش ہے کہ ان حضرات کا مسلک ہی یہ ہو کہ حکمین کو خلع اور تفریق کا اختیار ہی نہیں ہوتا، جب تک زوجین وکالت کے قیام کے ذریعے اس بارے میں اپنی رضامندی کا اظہار نہ کردیں اور وہ اس چیز کے حصول کے بغیر حکم ہی ہوتے۔ ہاں اگر زوجین کی رضامندی حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اس بارے میں ان کا ہر فیصلہ درست ہوگا، ذراغور کیجئے حکمین کے لیے شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع کا فیصلہ دینا اور بیوی کی رضامندی کے بغیر اس کی ملکیت سے مال نکلوانا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (واتوالنساء صدقاتھن نحلہ، فان طبن لکم عن شی منہ نفسا فکلوہ ھنیا مریا) ۔ نیز فرمایا (ولایحل لکم ان تاخذوا ممااتیتموھن شیاء۔۔ تا۔۔۔۔ فیماافتدت بہ) جس خوف کا اس آیت میں ذکر ہے آیت (فابعثوا حکما من اھلہ وحکما من اھلھا) میں بھی وہی مراد ہے ، اللہ تعالیٰ نے بیوی کو دی ہوئی چیزوں میں کسی چیز کے واپس لینے کی شوہر کو ممانعت کردی لیکن اگر دونوں کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اس اندیشے کی شرط پر عورت کے لیے جس چیز کے بدلے چاہے اسے خلع حاصل کرلینے کی اجازت دے کر مرد کے لیے اسے لے لینا حلال قرار دے دیا۔ اس صورت حال کے تحت زوجین کی رضامندی کے بغیر حکمین کے لیے خلع ی اطلاق واقع کردینا کس طرح جائز ہوسکتا ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے منصوص طریقے سے یہ فرمادیا کہ دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز واپس لینا شوہر کے لیے حلال نہیں ہے الایہ کہ وہ اپنی خوشی سے کوئی چیز اسے واپس کردے۔ اس لیے جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ شوہر کی طرف سے خلع کے معاملے میں توکیل کے بغیر حکمین کو خلع کرادینے کا اختیار ہے ، وہ نص کتاب کی مخالفت کررہے ہیں۔ نیز ارشاد باری ہے (ولاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بھا الی الحکام) اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ حاکم اور غیرحاکم دونوں اس حکم میں یکساں ہیں کہ کوئی شخص کسی کا مال لے کر کسی دوسرے کودے دینا کا اختیار نہیں رکھتا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لایحل مال امری مسلم الابطیبۃ من نفسہ) کسی مسلمان کا مال کسی کے لیے حلال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اپنی خوشی سے کچھ دے دے ) آپ کا یہ بھی ارشاد ہے (فمن قضیت لہ من حق اخیہ بشئی فانما قطع لہ قطعۃ من النار) جس شخص کو میں اپنے فیصلے کے ذریعے اس کے بھائی کا کوئی حق دے دوں گا تو گویا میں جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اس کے حوالے کردوں گا) ۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حاکم کو یہ اختیار نہیں کہ وہ بیوی کے مال کا کوئی حصہ اس سے لے کر شوہر کے حوالے کردے ، نیزا سے یہ اختیار بھی نہیں کہ شوہر کی طرف سے وکیل مقرر ہوئے بغیر اور اس کی رضامندی سے بالابالابیوی پر طلاق واقع کردے۔ یہ کتاب وسنت اور اجماع امت کا حکم ہے جس کے رو سے حاکم کے لیے درج بالا حقوق کے علاوہ دوسرے حقوق کو ساقط کردینا اور انہیں کسی اور کی طرف منتقل کردینا بھی جائز نہیں ہے الایہ کہ حق والا بھی اس پر رضامند ہوجائے۔ اب ذرا حکمین کی حیثیت ملاحظہ کیجئے انہیں تو صرف زوجین کے درمیاں صلح کرانے اور ان میں سے جو ظلم کررہا ہو اس کی نشاندہی کرنے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے جیسا کہ سعید نے قتادہ سے قول باری (وان خفتم شقاق بینھما) کے سلسلے میں روایت کی ہے کہ حکمین کا تقرر صرف صلح کرانے کی غرض سے کیا جاتا ہے۔ اگر انہیں اس میں ناکامی ہوجائے وہ ان میں سے جو ظالم ہوگا اس کی اور اس کے ظلم کی نشان دہی کردیں گے ، ان کے ہاتھوں میں زوجین کی علیحدگی نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں اس کا اختیار ہوتا ہے ، عطاء بن ابی رباح سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ اگر انہیں اس میں ناکامی ہوجائے تو وہ ان میں سے جو ظالم ہوگا اس کی اورا سکے ظلم کی نشان دہی کردیں گے ان کے ہاتھوں میں زوجین کی علیحدگی نہیں ہوتی اور نہ انہیں اس کا اختیار ہوتا ہے عطاء بن ابی رباح سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کے ضمن میں یہ دلالت موجود ہے کہ حکمین کو زوجین کے درمیان علیحدگی کرادینے کا اختیار نہیں ہے یہ دلالت آیت کے ان الفاظ (ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما) میں موجود ہے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر حکمین زوجین کے درمیان علیحدگی کراناچا ہیں، حکمین تو صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ زوجین میں سے جس کی طرف سے ظلم ہورہا ہوا سے سمجھائیں اور اس کی سرزنش کریں نیز حاکم کو اس کی اطلاع دیں تاکہ وہ اسے ظلم سے روک دے ، اگر شوہر ظلم کررہا ہو تو اس کی سرزنش کرتے ہوئے یہ تلقین کریں کہ تمہارے لیے اپنی بیوی کو اس نیت سے ایذادینا حلال نہیں ہے کہ وہ خلع کرالے۔ اگر ظلم بیوی کی طرف سے ہورہا ہو تو اس سے یہ کہیں ، اب تمہارے لیے فدیہ یعنی خلع کرالینا حلال ہے ، حکمین کے سامنے عورت کی سرکشی اور نفرت کے ظہور کی بنا پر شوہر کو اپنی بیوی سے خود خلع کی رقم وصول کرنے کے سلسلے میں معذور سمجھاجائے گا، جب زوجین میں ہر ایک کو اس کے متعلقہ حکم یعنی تفریق اور خلع کی سمت موڑ دیاجائے گا تو اس پوری کاروائی میں حکمین کی حیثیت زوجین کے وکلاء جیسی ہوجائے گی جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ اب ان کے لیے جائز ہوگا کہ اگر بہتر سمجھیں توخلع کرادیں اور اگر انہیں زوجین کے درمیان رشتہ ازدواج باقی رکھنے میں بھلائی نظرآئے توصلح کرادیں، اس طرح حکمین ایک حالت میں گواہوں کا کردار ادا کرتے ہیں اور ایک حالت میں صلح کنندگان ، پھر ایک حالت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کا اور اگر انہیں زوجین میں علیحدگی کرانے اور رشتہ زوجیت باقی رکھنے کا کام سپرد کردیا گیا ہوتویہ ان کے وکیلوں کا کردار ادا کرسکتے ہیں ، رہ گیا یہ قول کہ حکمین زوجین کی طرف سے وکیل مقرر ہوئے بغیر ان کے درمیان خلع کر اسکتے ہیں اور انہیں ایک ودسرے سے علیحدہ کر اسکتے ہیں یہ تو ایک زبردستی کی بات ہے جو کتاب وسنت سے خارج ہے ۔ واللہ اعلم۔ سلطان اور حاکم سے بالابالا خلع کرالینا امام ابوحنیفہ ، امام یوسف ، امام محمد، زفر، امام مالک ، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ سلطان کے لیے بغیر خلع جائز ہے ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، اور حضرت ابن عمر سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ حسن اور ابن سیرین کا قول ہے خلع صرف سلطان کے پاس جاکر ہوسکتا ہے ، سلطان کے بغیرخلع کے وقوع پر قول باری (فان طبن لکم عن شئی من نفسا فکلوہ ھنیا مریا) دلالت کرتا ہے کیونکہ اس کا ظاہر عورت سے خلع کے طور پر یا کسی اور وجہ سے مال لینے کے جواز کا مقتضی ہے نیز قول باری ہے (فلاجناح علیھما فیماافتدت بہ) اس میں سلطان کے پاس جاکر فدیہ دینے کی شرط نہیں ہے نیز جس طرح عقد نکاح اور دوسرے تمام عقود وسلطان کے پاس جاکر اورا سکے پاس گئے بغیر جائز ہوجاتے ہیں اسی طرح خلع بھی جائز ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ان عقود کی اصولی طوپرخصوصیت نہیں کہ ان کا انعقاد سلطان کے پاس جاکر ہوتا ہے۔
Top