Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا : اور تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَلَا تُشْرِكُوْا : اور نہ شریک کرو بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کسی کو وَّ : اور بِالْوَالِدَيْنِ : ماں باپ سے اِحْسَانًا : اچھا سلوک وَّ : اور بِذِي الْقُرْبٰى : قرابت داروں سے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : اور محتاج (جمع) وَالْجَارِ : ہمسایہ ذِي الْقُرْبٰى : قرابت والے وَالْجَارِ : اور ہمسایہ الْجُنُبِ : اجنبی وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ : اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس) وَ : اور ابْنِ السَّبِيْلِ : مسافر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہاری ملک (کنیز۔ غلام اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ : جو كَانَ : ہو مُخْتَالًا : اترانے والا فَخُوْرَۨا : بڑ مارنے والا
اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا
والدین کے ساتھ نیکی کرنا قول باری ہے (واعبداللہ ولاتشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا) اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو) اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ نیکی کے لزوم کو اپنی عبادت اور وحدانیت کے ساتھ مقرر کردیا اور اس کا اسی طرح حکم دیا جس طرح ان دونوں کا حکم دیا، نیز اپنے قول (ان ش کرلی ولوالدیک، یہ کہ میرا شکرکرو اور اپنے والدین کا) میں ان دونوں کا شکرادا کرنے کے حکم کو رب کا شکر ادا کرنے کے حکم کے ساتھ متصل کردیا۔ والدین کے حقوق کی عظمت اور ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کے وجوب پر یہی دلالت کافی ہے نیز فرمایا (ولاتقل لھمااف ولاتنھرھما وقل لھماقولا کریما، اور انہیں اف تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے ہمیشہ نرم لہجے میں گفتگو کرو۔ نیز فرمایا، ووصیناالانسان ب والدین حسنا، اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کی وصیت کی ) ۔ کافر والدین کے متعلق ارشاد ہوا (وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلاتطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا) اور اگر تمہیں یہ دونوں اس بات پر مجبورکریں کہ تم میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہیں تو ان دونوں کی نہ مانو اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلے طریقے سے رہو) ۔ عبداللہ بن انیس نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑھ کر ہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے جب کوئی شخص کسی چیز کی قسم کھاتا ہے خواہ وہ چیز مچھر کے برابر کیوں نہ ہو تو اس کے دل میں ایک دھبہ پڑجاتا ہے جو قیامت تک باقی رہتا ہے) ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ معروف میں والدین کی اطاعت واجب ہے اللہ کی معصیت میں نہیں ، اس لیے کہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاتی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں سعید بن منصور نے ، انہیں عبداللہ بن وہب نے ، انہیں عمرو بن الحارث نے ، انہیں ابوالسمح دراج نے ابوالہیـثم سے ، انہوں نے حضرت ابوسعید خدری سے کہ یمن کا ایک شخص ہجرت کرکے حضور کی خدمت میں آگیا۔ آپ نے اس سے دریافت کیا کہ یمن میں تمہارا کوئی رشتہ دار ہے ، اس نے جواب دیا کہ میرے والدین ہیں، آپ نے پوچھا، انہوں نے تمہیں یہاں آنے کی اجازت دی تھی ؟ اس نے نفی میں جواب دیا، آپ نے فرمایا واپس جاؤ اور ان سے اجازت طلب کرو اگر وہ اجازت دے دیں توپھرجہاد پر جاؤ ورنہ ان کے ساتھ نیکی کرتے رہو۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ کسی شخص کے لیے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جانا جائز نہیں ہے ، جبکہ دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے والوں کی موجودگی میں اسے جہاد پر نکلنے کی ضرورت نہ ہو، تجارت یا کسی اور غرض سے سفر جس میں قتال کی صورت پیش نہ آتی ہو اگر والدین کی اجازت کرلیاجائے تو ہمارے اصحاب کے قول کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس لیے کہ حضور نے اس یمنی کو والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جانے سے منع فرمادیا تھا، جبکہ اس فرض کو اس کے سوادوسرے لوگ ادا کررہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جہاد پر جانے کی صورت میں ممکن تھا کہ وہ شہید ہوجاتا اور اس کے والدین کو اس کا صدمہ برداشت کرنا پڑتا، لیکن تجارت اور جائز قسم کے کاموں کی غرض سے سفر جس میں قتل وغیرہ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا، والدین سے عام طور پر اس سے نہیں روکتے ، اس لیے ان کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ والدین کے حقوق کی عظمت کی اللہ تعالیٰ نے جو تاکید کی ہے اس کی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے اگر کسی مسلمان کا کافر باپ مسلمانوں سے برسرپیکار ہو تو وہ اپنے ہاتھ سے قتل کرنے سے گریز کرے کیونکہ فرمان الٰہی ہے ، (ولاتقل لھمااف) نیز قول باری ہے (وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس ۔ الخ) ۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے ساتھ اس حالت میں بھی بھلے طریقے سے پیش آنے کا حکم دیاجب کہ وہ کفر پر اس کے خلاف برسرپیکار ہوں، معروف میں یہ بات بھی داخل ہے کہ بیٹا ان کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے اور نہ ہی انہیں قتل کرے ہاں اگر اس پر مجبور ہوجائے تو الگ بات ہے۔ مثلابیٹے کو یہ خطرہ پیدا ہوجائے کہ اگر وہ کافر بات کو قتل نہیں کرے گا تو خود اس کے ہاتھوں قتل ہوجائے گا اس صورت میں اسے قتل کردیناجائز ہوگاکیو کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا توگویاوہ خود اپنی ذات کے قتل کا بایں صورت مرتکب ٹھہرے گا، کہ اس نے دوسرے کو اپنے اوپرقابو پانے کا موقعہ فراہم کردیا، جبکہ اسے اس کام سے اچھی طرح روکا گیا ہے جس طرح اپنے ہاتھوں اپنی جان لینے سے روکا گیا ہے۔ اس بنا پر اپنے کافر باپ کو ای سے موقعہ پر قتل کردینا جائز ہے حضور ﷺ سے مروی ہے آپ نے حنظلہ بن ابی عامر راہب کو اپنے باپ کے قتل سے روک دیا تھا، ان کا باپ مشرک تھا۔ ہمارے اصحاب کا یہ بھی قول ہے کہ اگر کسی مسلمان کے کافر ماں باپ مرجائیں تو وہ انہیں غسل دے گا، ان کی ار تھی کے ساتھ جائے گا اور تدفین میں شریک ہوگاکیون کہ یہ بات بھلے طریقے سے پیش آنے کے مفہوم میں شامل ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالاآیت میں حکم دیا ہے اگر یہ پوچھاجائے کہ قول باری ، وبالوالدین احسانا) کے کیا معنی ہیں اور اس فقرے میں کون سافعل پوشیدہ ہے تو یہ کہاجائے گا، یہ احتمال ہے اس کا مفہوم یہ ہو، استوصوا بالوالدین احسانا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت قبول کرو) اور یہ بھی احتمال ہے کہ معنی یہ ہوں ) احسنوا بالوالدین احسانا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو) ۔ قول باری ہے (وبذی القربی) اور قرابت داروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا اسی نہج پر حکم دیا ہے جس کا ذکر سورت کی ابتداء میں اپنے قول (والارحام) کے ذریعے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث کی ابتدا اپنی وحدانیت اور عبادت کے ذکر سے کی ، کیونکہ توحید کا عقیدہ وہ اصل اور بنیاد ہے جس پر تمام آسمانی شریعتوں اور نبوتوں کی عمارت کھڑی ہے اور جس کے حصول کی بنا پر مصالح دین تک رسائی ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کا ذکر فرمایا جو والدین کی نسبت سے اولاد پر واجب ہیں یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک ، ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی تعظیم وتکریم پھر اس پڑوسی کا ذکر فرمایا جو رشتہ دار بھی ہو اس سے مراد ایک مسلمان کا وہ مسلمان رشتہ دار ہے جسے رشتہ داری کی بنا پر حق حاصل ہے اور اسلام نے بھی اس سے موالات اور اس کی نصرت واجب کردی ہے پھر اجنبی ہمسایہ کا ذکر اس سے مراد کسی کا وہ ہمسایہ ہے جو نسب کے لحاظ سے اس سے دور ہو لیکن مسلمان ہو، اس میں ہمسائیگی کے حق اور ان حقوق کا اجتماع ہوجائے گاجواسلام نے اس کے لیے ربط ملت اور رشتہ مذہب کی بنا پر واجب کردیے ہیں حضرت ابن عباس مجاہد، قتاہ اور ضحاک کا قول ہے کہ رشتہ دار پڑوسی سے مراد وہ شخص ہے جو نسب کے لحاظ سے قریب ہو۔ تین طرح کے ہمسائے حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا، (الجیران ثلاثۃ فجار لہ ثلاثۃ حقوق حق الجوار وحق القرابۃ وحق الاسلام ، وجارلہ حقان حق الجوار وحق الاسلام وجارلہ حق الجوار المشرک من اھل الکتاب۔ پڑوسی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ 1) ایک ہمسایہ وہ ہے جس کے تین حقوق ہیں حق ہمسائیگی ، حق قرابت اور حق اسلام۔ 2) ایک ہمسایہ وہ ہے جس کے دوحقوق ہیں حق ہمسائیگی اور حق اسلام۔ 3) ایک ہمسایہ وہ ہے جسے صرف حق ہمسائیگی حاصل ہے یہ وہ ہمسایہ ہے جو اہل کتاب میں سے ہو اور مشرک ہو۔ قول باری ہے (والصاحب بالجنب، اور پہلو کے ساتھی) اس کے متعلق حضرت ابن عباس سے ایک روایت کے مطابق ، نیز سعید بن جبیر، حسن، مجاہد، قتادہ، سدی اور ضحاک سے مروی ہے کہ اس سے مراد سفر میں ساتھ ہوجانے والاشخص ہے۔ حضرت ابن مسعود، ابراہیم نخعی، اور ابن ابی لیلی سے مروی ہے کہ اس سے مراد بیوی ہے حضرت ابن عباس سے ایک اور روایت کے مطابق اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی سے خیر و بھلائی کی آس لگا کر اس کے درپرآکرپڑ رہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد ہمسایہ ہے خواہ نسب کے لحاظ سے قریب ہو یا بعید بشرطیکہ مومن ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب لفظ میں ان تمام معانی کا احتمال ہے توا سے ان سب پر محمول کرنا واجب ہے اور دلالت کے بغیر کسی خاص معنی کے ساتھ اسے مخصوص کردینا درست نہیں ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے آپ نے فرمایا (مازال جبریل یوصینی بالجار حتی ظننت انہ سیورثہ، مجھے جبرائیل ہمسایہ کے متعلق اتنی وصیت کرتے رہے کہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اب وہ اسے میروارث بھی بنادیں گے) ۔ سفیان نے عمرو بن دینار سے انہوں نے نافع بن جبیر بن مطعم سے اور انہوں نے ابوشریح الخزاعی سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلیکرم جارہ، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کا احترام کرے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ، اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اسے چاہیے کہ بھلی بات کرے یاپھر خاموش رہے ) عبیداللہ الوصافی نے ابوجعفر سے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا وہ شخص ایمان والا نہیں جو خود توشکم سیر ہو اور اس کا ہمسایہ بھوکارہ جائے۔ عمروبن ہارون انصاری نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا (ومن اشراط الساعۃ سوء الجوار وقطعیہ الارحام وتعطیل الجھاد) ۔ قیامت کی نشانیوں میں سے چند یہ ہیں کہ ہمسائے کے ساتھ برائی کی جائے رشتہ داروں سے قطع تعلقی کی جائے اور جہاد کو معطل کردیاجائے) ۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ پڑوسی کی عظمت کو تسلیم کرتے تھے اور اس کی حفاظت و حمایت میں پوری سرگرمی دکھاتے تھے جو حقوق رشتہ داری کے سلسلے میں تسلیم کیے جاتے تھے پڑوس اور ہمسائیگی کی بنا پر ان ہی حقوق کی پاسداری کی جاتی تھی ، زہیر کا شعر ہے، وجار البیت والرجل المنادی، ،، امام الحی عقدھما سواء۔ ہمسایہ اور قبیلے کی مجلس میں ساتھ رہنے والاشخص قبیلے کے سامنے ان دونوں کے ساتھ تعلق میں یکسانیت ہوتی ہے۔ الرجل المنادی، سے وہ شخص مراد ہے جو قبیلے کی مجلس میں ساتھ رہنے والاہوبعض اہل علم کا قول ہے کہ الصاحب بالجنب سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کے گھر کے ساتھ اس کا گھر ملاہوا ہو اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ اس کا اس لیے ذکر فرمایا تاکہ اس پڑوسی پر اس کے حق کی فوقیت کی تاکید ہوجائے جس کا گھر متصل نہ ہو۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں ابوعمر ومحمد بن عثمان قرشی نے ، انہیں اسماعیل بن مسلم نے ، انہیں عبدالسلام بن حرب نے ابوخالد والابی سے ، انہوں نے ابوالعلاء ازدی سے ، انہوں نے حمیدبن عبدالرحمن حمیری سے انہوں نے ایک صحابی سے کہ حضور نے فرمایا، اگر تمہیں دو شخصوں کی طرف سے بیک دعوت طعام ملے تو اس کے ہاں چلے جاؤ جس کا دروازہ تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو کیونکہ ایساشخص زیادہ قریبی ہمسایہ ہوتا ہے اور اگر ان دونوں میں سے ایک کی دعوت تمہیں پہلے پہنچ جائے توپھرتم اس کی دعوت کو قبول کرلو) ۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ اپنے گھر سے چالیس گھروں تک پڑوس کا دائرہ ہوتا ہے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن شبیب معمری نے ، انہیں محمد بن مصفی نے ، انہیں یوسف بن السفر نے اوزاعی سے ، انہوں نے یونس سے ، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے فرمایا کہ مجھے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے اپنے والد سے یہ روایت بیان کی ہے ، کہ ایک شخص حضور کی خدمت میں آکر کہنے لگا میں فلاں قبیلے کے محلے میں آکرٹھہراہوں تو کیا اب وہ شخص جس کا میرے ساتھ سلوک سب سے بڑھ کر ہوگا وہی میرا سب سے قریبی پڑوسی ہوگا ؟ آپ نے سن کر حضرت ابوبکر، حضرت عمر، اور حضرت علی کو بلوایا اور انہیں حکم دیا کہ مسجد نبوی کے دروازے پر جاکر تین دفعہ یہ اعلان کردیں کہ چالیس گھروں تک پڑوس ہوتا ہے اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے خائف رہتا ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے پوچھا، ابوبکر ، چالیس گھر کس طرح ؟ انہوں نے جواب دیا اس طرف چالیس گھر اور اس طرف چالیس گھر اللہ تعالیٰ نے ایک شہر میں اکـٹھی رہائش کو بھی پڑوس کا نام دیا ہے۔ چنانچہ قول باری ہے (لئن لم ینتہ المنافقون والذین فی قلوبھم مرض والمرجفون فی المدینہ۔۔۔ تا۔۔۔ الاقلیلا۔ اگر منافقین اور وہ لوگ باز نہ آئے جن کے دلوں میں روگ ہے اور جو مدینہ مین افواہیں اڑایا کرتے ہیں توہم ضرور آپ کو ان پر مسلط کردیں گے پھر یہ لوگ آپ کے پاس مدینہ میں بس قدرے قلیل رہنے پائیں گے) آیت کے اندر حضور کے ساتھ مدینہ میں ان لوگوں کے اجتماع کو پڑوس کا نام دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں جس حسن سلوک کا ذکر فرمایا ہے اس کی کئی صورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ ان میں سے جو مفلس ہو اور بھوک اور ننگ کی بنا پرا سے شدید ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو اس کی خبرگیری کرے اور حتی الامکان اس کی ضرورتیں پوری کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حسن معاشرت اور ایذارسانی سے باز رہے اور اس پر ظلم کرنے والے کے خلاف اس کا پورا پورا دفاع کرے نیز حسن اخلاق اور حسن سلوک کا بھی مظاہرہ کرے جو حسن معاشرت کے ضمن میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پڑوس کی بنا پر جو حقوق واجب کیے ہیں ان میں سے ایک حق شفعہ بھی ہے جو اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جس کے پہلو میں واقع مکان فروخت کردیا گیا ہو، واللہ الموفق۔ شفعہ بالجو اور میں اختلاف رائے کا ذکر امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، اور زفر کا قول ہے کہ فروخت شدہ چیز میں شریک مبیع تک جانے والے راستے میں شریک سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے پھر مبیع تک جانے والے راستے میں شریک ساتھ والے پڑوسی سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے پھر اس پڑوسی کانمبرآتا ہے جوان پڑوسیوں کے بعد آتا ہے۔ ابن شبرمہ ، ثوری، اور حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے ، امام مالک اور مام شافعی کا قول ہے کہ ایسی چیز میں کوئی شفعہ نہیں ہوتا جو کچھ لوگوں میں مشترک ہو اور ان کے حصے متعین نہ ہوں اس کنویں میں بھی کوئی شفعہ نہیں ہوتا جس کے ساتھ خالی زمین نہ ہو اور اس کی تقسیم بھی نہ ہوسکتی ہو۔ سلف کی ایک جماعت سے پڑوسی کے لیے شفعہ کے وجوب کی روایت منقول ، حضرت عمر سے یہ روایت ہے اور ابوبکر بن ابی حفص بن عمر سے مروی ہے کہ قاضی شریح نے کہا، مجھے حضرت عمر نے تحریری حکم بھیجا تھا کہ میں شفعہ بالجوار یعنی پڑوس کی بنا پر شفعہ کا فیصلہ کروں ، عاصم نے شعبی سے اور انہوں نے شریح سے روایت کی ہے کہ شریک (مال کے اندر شراکت رکھنے والا) خلیط (مال کے حقوق میں شریک) سے بڑھ کر حق دار ہے اور خلیط پڑوسی سے بڑھ کر اور پڑوسی باقی ماندہ تمام لوگوں سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے۔ ایوب نے امام محمد سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا، کہاجاتا تھا کہ شریک خلیط سے بڑھ کر اور خلیط باقی ماندہ لوگوں سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ اگر شریک موجود نہ ہوتوپڑوسی کو سب سے بڑھ کر حق شفعہ حاصل ہوگا، طاوس کا بھی یہی قول ہے ، ابراہیم بن میسرہ کا کہنا ہے کہ ہمیں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تحریر کیا تھا کہ جب کسی مکان یا جگہ کا حدود اربعہ متعین کردیاجائے تو پھر حق شفعہ باقی نہیں رہتا۔ طاؤس کا قول ہے کہ پڑوسی زیادہ حق دار ہوتا ہے پڑؤسی کے لیے حق شفعہ کے وجوب پر دلالت کرنے والی وہ روایت ہے جسکے راوی حسین المعلم ہیں انہوں نے عمرو بن شعیب سے اس کی روایت کی ہے انہوں نے عمرو بن الشرید سے ، انہوں نے اپنے والد سے کہ میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ایک زمین ہے جس میں پڑوسی کے سو اور کوئی شریک نہیں ہے آپ نے فرمایا پڑوسی اپنے قرب کی بنا پر دوسروں کے مقابلے اس کا زیادہ حق دار ہے جب تک وہ قرب باقی رہے سفیان نے ابراہم بن میسرہ سے انہوں نے عمرو بن شرید سے انہوں نے حضرت ابورافع سے اور انہوں نے حضور سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، (الجار احق بسقبہ، پڑوسی اپنے قرب کی بنا پر زیادہ حق دار ہے) ۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہمیں عبدالکریم نے حضرت مسور بن مخرمہ سے اور انہوں نے حضرت رافع بن خدیج سے روایت کی ہے کہ حضرت سعد نے اپنا ایک گھر مجھے خریدنے کی پیش کش کی اور کہا کہ مجھے اس کی قیمت اس سے زیادہ مل رہی ہے جو تم دو گے لیکن تم اس کی خریداری کے زیادہ حق دار ہو کیونکہ میں نے حضور کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (الجار احق یسقبہ) ۔ ابوالزبیر نے حضڑت جابر سے روایت کی ہے کہ حضور نے پڑوس کی بنا پر حق شفعہ کا فیصلہ دیاتھاعبدالمالک بن ابی سلیمان نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا پڑوسی اپنے قرب کی بناپرزیادہ حق دار ہوتا ہے اس کے جواب کا انتظار کیا جائے گا خواہ غائب کیوں نہ ہو جبکہ ان دونوں کا راستہ مشترک ہو، ابن ابی لیلی نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے حضور نے فرمایا، الجار احق بسقبہ ماکان) قتادہ نے حسن سے اور انہوں نے حضرت سمرہ سے روایت کی ہے حضور نے فرمایا (جارالداراحق بشفعۃ الجار، گھر کے ساتھ والاپڑوسی شفعہ کا زیادہ حق دار ہوتا ہے قتادہ نے حضڑت انس سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، گھر کا پڑوسی اس گھرکازیادہ حق دار ہوتا ہے ، سفیان نے منصور سے ، انہوں نے حکم سے روایت کی ہے کہ حکم نے کہا، مجھے ایک ایسے شخص نے روایت سنائی ہے جس نے حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ حضور نے پڑوس کی بنیاد پر حق شفعہ کا فیصلہ فرمایا تھا، یونس نے حسن سے روایت کی ہے حضور نے شفعہ بالجوار کا فیصلہ دیا، تھا یہ پوری جماعت حضور سے اس روایت پر متفق ہے اور ہمیں کسی بھی شخص کے بارے میں علم نہیں جس نے ان روایات کو رد کردیا ہو جب کہ یہ روایات امت میں شائع وذائع تھیں اور ان کی کثرت کی بنا پر اصطلاحی طور پر حد استفاضہ کو پہنچی ہوئی تھیں، اب جو شخص بھی انہیں تسلیم کرنے سے گریز کرے گا وہ حضور سے ثابت شدہ ایک سنت کاتارک قرار پائے گا۔ جن لوگوں نے حق شفعہ کا انکار کیا ہے ان کا استدلال اس روایت سے ہے جس کے راوی ابوعاصم النبیل ہیں ، انہوں نے امام مالک سے اس کی روایت کی ہے ، امام مالک نے زہری سے انہوں نے سعید بن المسیب اور ابوسلمہ بن عبیدالرحمن سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے اس مشترک چیز میں شفعہ کا فیصلہ فرمایا تھا، جو تقسیم نہ ہوئی ہو جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ابوقنبلہ المدنی اور عبدالملک بن عبدالعزیز الماجشون نے امام مالک سے روایت کی ہے ، اس حدیث کو اگرچہ ان حضرات نے حضڑت ابوہریرہ سے موصولاروایت کی ہے لیکن اصل میں یہ سعید بن المسیب سے مقطوعا مروی ہے اسے معن ، وکیع، القعنبی اور ابن وہب سب نے امام مالک سے ، انہوں نے زہری سے اور انہوں نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے اس میں حضرت ابوہریرہ کا ذکر نہیں ہے۔ امام مالک کی کتاب، الموطا، میں یہ روایت اس طرح مندرج ہے اگر اس روایت کاموصولا مروی ہوجانا بھی ثابت ہوجاتاتھاتو بھی اسے ان روایات کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا جنہیں تقریبا دس صحابہ کرام نے شفعہ کے وجوب کے سلسلے میں حضور ﷺ سے روایت کی ہے۔ کیونکہ یہ روایات اصطلاحی طور پر متواتر ومستفیض روایت کے درجے کو پہنچ گئی ہیں اس لیے اخبار احاد کے ذریعے ان کا معارضہ نہیں ہوسکتا اگر یہ اخبار آحاد کئی وجوہ سے ثابت ہوجاتے جس کی بنا پر ان کے ذریعہ ان روایات کا معارضہ جائز ہوجاتاجن کا ہم نے اوپرذکر کیا ہے تو بھی ان اخبار آحاد میں ایسی بات نہ ہوتی توجوپڑوس کے لیے حق شفعہ کے ایجاب کی روایات کی نفی کردیتی کیونکہ ان روایات میں زیادہ سے زیادہ یہی بات ہے کہ حضور نے اس مشترک چیز میں شفعہ کا فیصلہ صادر فرمایا تھاجوتقسیم نہیں ہوئی تھی پھر جب حدود اربعہ، متعین ہوجائے تو حق شفعہ ختم ہوجاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کے اس قوپ پر کہ ، حضور نے اس مشترک چیز میں شفعہ کا فیصلہ صادر فرمایا تھاجوتقسیم نہیں ہوئی تھی ، شریک کے لیے حق شفعہ کے ایجاب پر عمل کرنے میں سب کا اتفاق ہے تاہم اس کے باوجود اس میں حضور کے صرف ایک خاص فیصلے کی حکایت ہے اس کے لفظ میں عموم نہیں اور نہ ہی ا س میں حضور کے ایک قول یا فرمان کی نقل ہے۔ رہ گیا حضرت ابوہریرہ کا یہ قول کہ جب حدود متعین ہوجائیں تو پھر کوئی شفعہ نہیں ہوتا تواسمیں یہ احتمال ہے کہ یہ راوی کا کلام ہوکیون کہ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حضور نے یہ فرمایا تھایا آپ نے اس کا فیصلہ صادر کیا تھا۔ جب کسی روایت کے متعلق یہ احتمال پیدا ہوجائے کہ یہ حضور کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات ہے یا یہ راوی کا اپناقول ہے جسے اس نے اصل حدیث میں داخل کردیا تھا جس کی روایات میں ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں تو ایسی صورت میں ہمارے لیے حضور سے اس روایت کا اثبات جائز نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ بات کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ شک اور احتمال کی بنیاد پر ایک بات کی نسبت حضور کی طرف کردے یہ وہ وجہ ہے جس کی بنا پر اس روایت کے ذریعے ایجاب شفعہ کی روایات کا معارضہ نہیں کیا جاسکتا۔ حق شفعہ تسلیم نہ کرنے والوں کا استدلال اس روایت پر بھی ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ہے انہیں حامد بن محمد المعروف نے، انہیں عبیداللہ بن عمروالقواریری نے انہیں عبدالواحد بن زیاد نے انہیں معمر نے زہری سے انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ حضور نے اس مشترک چیز میں حق شفعہ کا فیصلہ صادر فرمایا تھاجوابھی تقسیم نہیں ہوئی تھی لیکن جب ایک چیز یعنی مکان یا زمین وغیرہ کی حدود متعین ہوجائیں اور راستے بدل دیے جائیں توپھرشفعہ باقی نہیں رہتا، اس روایت میں شفعہ بالجوار کی نفی پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس میں وجوب شفعہ کی نفی کا اس صورت میں ذکر ہواجب حدود متعین ہوجائیں اور راستے بدل دیے جائیں اس سے تو اس شخص کے لیے شفعہ کی نفی کا اظہار ہوتا ہے جو ساتھ والے پڑوسی کے سوا کوئی اور ہوتا ہے کیونکہ راستوں کی تبدیلی اس پڑوس کی نفی کرتی ہے جس میں گھر سے گھرملا ہواہو اس لیے کہ ایسے دوپڑوسیوں کے درمیان آنے جانے کے لیے ایک اور راستہ ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ہم اس روایت کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کریں گے تو حدیث کے الفاظ حدود اربعہ کے قیام اور رواستے کی تبدیلی پر شفعہ کی نفی کے مقتضی ہوں گے حدود کا قیام اور راستوں کی تبدیلی تقسیم کادوسرانام ہے گویا حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ تقسیم میں کوئی شفعہ نہیں ہوتا، جیسا کہ ہمارے اصحاب کا قول ہے تقسیم میں شفعہ نہیں ہوتا۔ پہلی حدیث بھی ان ہی معنوں پر محمول کی جائے گی ، نیز عبدالملک بن ابی سلیمان نے عطاء سے انہوں نے حضرت جابر سے انہوں نے حضور سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، (الجار احق بسقبہ ینتظوبہ وان کان غائبا اذاکان طریقھماواحدا، یہ دونوں روایتیں حضرت جابر کے واسطے سے حضور سے مروی ہیں اب یہ بات درست نہیں کہ ایک ہی صحابی سے مروی دوروایتوں کو ایک دوسرے کے متعارض قرار دیاجائے جبکہ ان دونوں پر عمل پیرا ہونے کا امکان موجود ہو۔ ہمارے لیے ان دونوں پر اس طریقے سے عمل پیرا ہوناممکن ہے جو ہم نے ابھی بیان کیے ہیں جبکہ ہمارے مخالفین ان دونوں کو ایک دوسری کی متعارض قرار دیتے ہیں اور ایک کو دوسری کی بنا پر ساقط کردیتے ہیں اس میں یہ بھی امکان ہے کہ کسی سبب اور پس منظر کی بنا پر حضور کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے ہوں لیکن راوی نے آپ کے الفاظ تو نقل کردیے اور سبب کا ذکر نہیں کیا۔ مثلا یہ ممکن ہے کہ آپ کے پاس دو شخص اپنا جھگڑا لے کر آئے ہوں ان میں سے ایک پڑوسی ہو اوردوسراشخص شریک ہو آپ نے شریک کے لیے شفعہ کا فیصلہ کردیا ہوپڑوسی کے لیے نہ کیا ہو، اور یہ فرمایا دیاہو کہ جب حدود متعین ہوجائیں گے توپھرپڑوسی کے ہوتے ہوئے اس حصے دار کے لیے کوئی شفعہ نہیں ہوگا، جس کا حصہ تقسیم ہوگیا ہوگا۔ جس طرح حضرت اسامہ بن زید نے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا، (لارباالافی النسیۃ، صرف ادھار کے اندرسود ہوتا ہے تمام فقہاء کے نزدیک یہ ایساکلام ہے جس کے پس منظر میں کوئی سبب ہوتا ہے اور اس کاراوی حضور کا قول تو، نقل کردیتا ہے لیکن سبب کا ذکر نہیں کرتا۔ درج بالا حدیث میں اس طرح ہوئی ہوگی کہ حضور سے سونے اور چاندی کے دومختلف نوع کی ایک دوسرے کے بدلے بیع کے متعلق سوال کیا گیا ہوگا۔ تو آپ نے جواب میں فرمایا ہوگا کہ صرف ادھار کی صورت میں سود ہوگا جس کے متعلق سوال کیا گیا ہے حق شفعہ کے متعلق حضور کے قول کا بھی یہی مفہوم ومحمل ہے۔ ایک اور پہلو سے اس پر غور کریں اگر شفعہ بالجوار کے ایجاب اور اس کی نفی کی روایتیں یکساں قرار دی جائیں تو اس صورت میں ایجاب کی روایتیں نفی کی روایتوں کے مقابلے میں اولی ہوں گی کیونکہ اصل کے لحاظ سے شفعہ کا اس وقت تک وجوب نہیں ہوا تھا، جب تک شرع کے ذریعے اس کا ایجاب وارد نہیں ہوا، اس لیے شفعہ کی نفی کی روایت اپنے اصل پروارد ہوئی ہے اور اس کے اثبات کی روایت اس کے بعد وارد ہوئی ہے اور شفعہ کے حکم کو اس کے اصل سے منتقل کررہی ہے اس لیے یہ روایت اولی ہوگی۔ اگرچہ یہ کہاجائے پڑوسی سے شریک مراد ہوسکتا ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہم نے گذشتہ سطور میں جن احادیث کی روایت کی ہے ان میں سے اکثر حدیثیں اس تاویل کی نفی کرتی ہیں اس لیے کہ ان احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے گھر کا پڑوسی اس گھر کے شفعہ کا زیادہ حق دار ہوتا ہے اور شریک کو گھر کا پڑوسی نہیں کہاجاتا۔ حضرت جابر کی روایت کردہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ اس کا انتظار کیا جائے گا خواہ وہ کہیں چلاکیوں نہ گیا، جبکہ ان دونوں کا راستہ مشترک ہو، مبیع میں شریک کے متعلق یہ کہنا درست نہیں ہوسکتا۔ نیز شریک کو پڑوسی نہیں کہاجاتا کیونکہ شراکت کی بنا پر اگر شریک پڑوسی کے نام سے پکارے جانے کا حق دار ہوتاتو پھر کسی شے میں ہر دوشریکوں کو پڑوسیوں کے نام سے پکارناضروری ہوتا، مثلاایک غلام یا ایک سواری کے جانور کے دوشریک۔ جب ان چیزوں میں شراکت کی بنا پر کوئی شریک پڑوسی کے اسم کا مستحق قرار پاتا ہے تو اس سے اس بات پر دلالت حاصل ہوتی ہے کہ شریک کو پڑوسی کا نام نہیں دیاجاتا۔ پڑوسی تو وہ ہوتا ہے جس کا حق اور حصہ شریک کے حق اور حصے سے بالکل علیحدہ ہوتا ہے اور ہر ایک کی ملکیت دوسرے کی ملکیت سے بالکل متمیز ہوتی ہے نیز شراکت کی بنا شفعہ کا استحقاق اس لے پیدا ہوتا ہے کہ وہ تقسیم کے ذریعے پڑوس کے مفہوم کے حصوں کی مقتضی ہوتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام اشیاء میں شراکت شفعہ کی موجب نہیں ہوتی کیونکہ تقسیم کے وقت اس کے ذریعے پڑوس مفہوم کا حصول نہیں ہوتایہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ زمین کے اندر شراکت کی بنا پر شفعہ کا استحقاق اس لیے ہوتا ہے کہ تقسیم کی صورت میں اس کے ساتھ پڑوس کا مفہوم متعلق ہوجاتا ہے اگرچہ شریک اس فضیلت اور خصوصیت کی بنا پر پڑوسی سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے جوا سے پہلے سے حاصل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تقسم کی وجہ سے پڑوس کا حق بھی اس سے متعلق ہوجاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام اشیاء میں شراکت شفعہ کی موجب نہیں ہوتی کیونکہ اس کے ذریعے پڑوسی کے مفہوم کا حصول نہیں ہوتا، جس طرح حقیقی بھائی علاتی بھائی سے بڑھ کر میراث کا حق دار ہوتا ہے اگرچہ باپ کی جہت سے بھائی ہونے کی بنا پر وہ عصبہ قرار پانے کا مستحق ہوجاتا ہے اور حقیقی بھائی کی عدم موجودگی میں میراث کا مستحق ہوتا ہے۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ ماں کی طرف سے قرابت کی صورت میں وہ عصبہ قرار پانے کا مستحق نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں باپ کی طرف سے قرابت نہیں ہوتی۔ تاہم یہ بات اس قرابت کے عصبہ قرار پانے کو موکد کردیتی ہے جو باپ کی جہت سے ہوٹھیک اسی طرح شریک شراکت کی بنا پر شفعہ کا اس لیے مستحق ہوتا ہے کہ تقسیم کی وجہ سے پڑوس کے مفہوم کے حصول کا اس کے ساتھ تعلق ہوجاتا ہے اور شریک اس فضیلت اور خصوصیت کی بنا پر جوا سے حاصل ہوتی ہے پڑوسی سے اولی قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے میراث میں عصبہ کی مثال کے ذریعے سے بیان کیا ہے ج اور جس سبب کی بنیاد پر اس کے ساتھ شفعہ کے وجوب کا تعلق ہوتا ہے وہ جوار یعنی پڑوس اور ہمسائیگی ہوتی ہے نیز وہ سبب جس کی بنا پر شراکت کی وجہ سے شفعہ واجب ہوتا ہے وہ ایک شریک کے وجود کی صورت میں دوسرے کا ہمیشہ تکلیف میں مبتلارہنا ہے۔ یہی سبب پڑوس کی صورت میں بھی موجود ہوتا ہے کیونکہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے وجود کی صورت میں اس طرح تکلیف اٹھاتا ہے کہ دوسراپڑوسی اپنے گھر کی چھت وغیرہ سے اسے جھانک سکتا ہے اس کے معاملات سے آگاہ ہوسکتا ہے اور اس کے امور کو اپنی نظروں میں رکھ سکتا ہے۔ اس لیے پڑوسی کے لیے بھی شفعہ کا وجوب ضروری ہوگیا کیونکہ اس کے اندر بھی وہی سبب پایاجاتا ہے جس کی بنا پر شریک کے لیے شفعہ واجب ہوا تھا، لیکن اس سبب کا وجود اس پڑوسی میں نہیں پایاجاتا جس کا گھر گھر سے ملاہوا نہ ہوکیون کہ اس صورت میں اس پڑوسی اور پہلے پڑوسی کے گھروں کے درمیان گذرگاہ ہوگی اور جو اوپر سے اس کے گھر میں جھانکنے اور اس کے معاملات سے باخبر ہونے کی راہ میں حائل ہوگی۔ ابن سبیل ، مسافر یا مہمان، قول باری ہے (وابن السبیل، اور مسافر کے ساتھ ) مجاہد اور ربیع بن انس سے مروی ہے کہ اس کے معنی مسافر کے ہیں ، قتادہ اور ضحاک کا قول ہے کہ اس کے معانی مہمان کے ہیں ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس کے معنی راستے والے کے ہیں، یہ اسی طرح ہے جیسے آبی پرندے کو، ابن ما، کہاجاتا ہے شاعر کا قول ہے ، وردت اعتسافا الثریا کانھا، علی قمۃ الراس ابن ماء محلق، میں راستے کو جانے پہچانے بغیر اس پر چلتا رہا اور رات کے باعث ثریا ستارہ یوں نظر آرہا تھا گویا وہ سر کے اوپرچکر لگانے والا کوئی آبی پرندہ ہو۔ جن حضرات نے اس لفظ کو مہمان کے معنوں پر محمول کیا ہے ان کے لیے بھی اس کی گنجائش ہے کیونکہ مہمان بھی اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو مسافت طے کرنے والا اور قیام نہ کرنے والاہوتا ہے ، اس لیے سفر کرنے والے مسافر کے ساتھ مہمان کو تشبیہ دے کرا سے ابن السبیل کے نام سے موسوم کیا گیا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ ابن سبیل وہ شخص ہے جو سفر کا ارادہ رکھتاہو لیکن اس کے پاس زاد راہ نہ ہو یہ بات درست نہیں ہے اس لیے کہ ایک شخص جب تک سفر کی راہ پر چل نہ نکلے وہ نہ ابن سبیل کہلاتا ہے نہ مسافر اور نہ ہی رستہ طے کرنے والا۔ قول باری ہے (وماملک ایمانکم) اور ان لونڈی غلاموں کے ساتھ جو تمہارے قبضے میں ہوں) یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک کرو جس کا حکم آیت کی ابتداء میں دیا گیا ہے سلیمان التیمی نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس سے روایت کی ہے حضور ﷺ عام طورپر مسلمانوں کو جس چیز کی نصیحت فرمایا کرتے تھے وہ نماز اور لونڈی غلاموں کے متعلق ہوتی تھی ، حتی کہ یہ حالت تھی گویا یہی نصیحت آپ کے سینے میں جوش ماررہی ہے اور آپ کی زبان کبھی بند نہیں ہوتی تھی۔ حضرت ام سلمہ نے اس کی روایت کی ہے ، اعمش نے طلحہ بن مصرف سے ، انہوں نے ابوعمارہ سے اور انہوں نے عمرو بن شرجیل سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ وسلم نے فرمایا (الغنم برکتہ والابل عزلاھلھا والخیل معقودفی نواصیھا الخیر الی یوم القیامۃ والمملوک اخوک فاحسن الیہ فان وجدتہ مغلوبا فاعنہ۔ بھیڑ بکریاں برکت کا سبب ہیں ، اونٹ مالک کے لیے باعث عزیز وافتخار ہیں گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لیے خیر و بھلائی رکھ دی گئی ہے مملوک تمہارا بھائی ہے ، اس لیے اس سے حسن سلوک کرو، اگر تم اسے کام کے بوجھ تلے دبا ہواپاؤتو اس کا ہاتھ بٹاؤ ، مرۃ الطیب نے حضرت ابوبکر سے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا، (لایدخل الجنہ سی الملکہ، اپنی ملکیت میں آجانے والوں کے ساتھ براسلوک کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا) یہ سن کر صحابہ کرام نے عرض کیا ، اللہ کے رسول کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ یہ امت لونڈی غلاموں اور ماتحتوں کے لحاظ سے دوسری تمام امتوں سے بڑھ کر ہوگی، اس پر آپ نے فرمایا (بلی ، فاکرموھم ککرامۃ اولادکم واطعموھم مماتاکلون، کیوں نہیں ، اس لیے تم اپنے ماتحتوں اور لونڈی غلاموں کی اس طرح تکریم کرو جس طرح تم اپنی اولاد کی کرتے ہو، اور انہیں بھی وہی کچھ کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو) ۔ اعمش نے معرور بن سوید سے روایت کی ہے کہ میرا ایک مرتبہ حضرت ابوذر کے پاس سے گذرا ہوا جب وہ ربذہ میں مقیم تھے میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور کا ارشاد ہے (المماالیک ھم اخوانکم ولکن اللہ خولکم ایاھم فاطعموھم مماتاکلون والبسوھم مماتلبسون، تمہارے مملوک یعنی غلام تمہارے بھائی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہیں عطا کردیا ہے ، اس لیے انہیں کھلاؤ اور پہناؤ جو تم خود کھاتے ہو اور پہنتے ہو) ۔
Top