بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Usmani - An-Nisaa : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءً١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگ اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمُ : اپنا رب الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے نَّفْسٍ : جان وَّاحِدَةٍ : ایک وَّخَلَقَ : اور پیدا کیا مِنْھَا : اس سے زَوْجَهَا : جوڑا اس کا وَبَثَّ : اور پھیلائے مِنْهُمَا : دونوں سے رِجَالًا : مرد (جمع) كَثِيْرًا : بہت وَّنِسَآءً : اور عورتیں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو تَسَآءَلُوْنَ : آپس میں مانگتے ہو بِهٖ : اس سے (اس کے نام پر) وَالْاَرْحَامَ : اور رشتے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلَيْكُمْ : تم پر رَقِيْبًا : نگہبان
اے لوگوں ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اسی سے پیدا کیا اس کا جوڑا اور پھیلائے ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں7 اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کے واسطہ سے سوال کرتے ہو آپس میں اور خبردار رہو قرابت والوں سے1 بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے2
7 یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے اول تو حضرت حوا کو ان کی بائیں پسلی سے نکالا، پھر ان دونوں سے تمام مرد اور عورتوں کو پیدا کیا، اور دنیا میں پھیلایا تو حقیقت میں تمام آدمی ایک جان اور ایک شخص سے اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے، مطلب یہ ہے کہ جب تم سب کو عدم سے وجود میں لانے والا اور پھر تم کو باقی اور قائم رکھنے والا وہی ہے تو اس سے ڈرنا اور اس کی فرمانبرداری ضروری بات ہے، اس سے اشارہ ہوگیا دو مضمونوں کی طرف اول یہ کہ اللہ تعالیٰ تم سب کا خالق اور موجد ہے، دوسرے یہ کہ تمام آدمیوں کے لئے سبب وجود کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے سب کو پیدا فرمایا، ایک ہی جان یعنی ابو البشر آدم (علیہ السلام) ہے جس سے معلوم ہوگیا کہ ہمارا اصلی تعلق تو اللہ سے ہے کیونکہ علت نامہ اور اس کے معلول میں جس قدر تعلق اور قرب اور علاقہ احتیاج ہوتا ہے وہ کسی میں ممکن نہیں اس کے بعد وہ تعلق اور قرب سے جو افراد انسانی میں باہم پایا جاتا ہے کیونکہ ان کا سبب وجود اور مخلوق منہ بالکل شے واحد ہے جس سے معلوم ہوگیا کہ اول تو ہمارے ذمہ پر خدا تعالیٰ کی اطاعت لازم ہونی چاہیے کہ وہ ہمارا خالق ہے اس کے بعد تمام مخلوقات میں خاص اپنے بنی نوع کی رعایت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہم پر ضروری ہونا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کے لئے مخلوق منہ اور سبب وجود ایک چیز کو مقرر فرمایا تو جو قرب اور جو اتحاد افراد انسانی میں باہم موجود ہے وہ کسی دوسری چیز کے ساتھ حاصل نہیں، اسی وجہ سے شرعاً اور عقلاً آدمیوں میں باہم حسن سلوک ایسا ضروری اور بدسلوکی اس قدر مذموم ہے جو اوروں کے ساتھ نہیں، جس کی تفصیل نصوص اور احکام شرعیہ میں برابر موجود ہے۔ شیخ علیہ الرحمتہ نے اسی مضمون کو بیان کیا ہے۔ قطعہ بنی آدم اعضائے یک دیگراند۔ کہ درآفرینش زیک جو ہراند چو عضوے بدردآورد روزگار۔ دگر عضوہارا نماند قرار۔ تو اس موقع میں حق تعالیٰ نے اپنی خالقیت ظاہر فرما کر اپنی اطاعت کا حکم دیا اور بنی آدم کے اتحاد اصلی کو جتلا کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ باہم ایک ہو کر رہو چناچہ آیت کے آیندہ حصہ میں اس اشارہ کو ظاہر کردیا۔ 1 خالق اور رب یعنی موجد اور مبقی ہونے کے علاوہ اللہ سے ڈرنے اور اس کی اطاعت کے وجوب کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ تم اس کا واسطہ دیکر آپس میں ایک دوسرے سے اپنے حقوق اور فوائد طلب کرتے ہو اور آپس میں اس کی قسمیں دیتے ہو اور ان پر اطمینان حاصل کرتے کراتے ہو یعنی اپنے باہمی معاملات اور حاجات عارضہ میں بھی اسی کا ذریعہ پکڑتے ہو مطلب یہ ہوا کہ وجود اور بقا ہی میں احتیاج منحصر نہیں، بلکہ تمام حاجتوں اور کاموں میں بھی اس کے محتاج ہو اس لئے اس کی اطاعت کا ضروری ہونا اور بھی محقق ہوگیا اس کے بعد تم کو یہ حکم ہے کہ قرابت سے بھی ڈرو یعنی اہل قرابت کے حقوق ادا کرتے رہو، اور قطع رحمی اور بدسلوکی سے بچو۔ بنی نوع یعنی تمام افراد انسانی کے ساتھ علی العموم سلوک کرنا تو آیت کے پہلے حصہ میں آچکا تھا اہل قرابت کے ساتھ چونکہ قرب و اتحاد مخصوص اور بڑھا ہوا ہے اس لئے ان کی بدسلوکی سے اب خاص طور پر ڈرایا گیا، کیونکہ ان کے حقوق دیگر افراد انسانی سے بڑھے ہوئے ہیں، چناچہ حدیث قدسی قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ انا اللّٰہ وانا الرحمن خلقت الرحم وشققت لھا من اسمی فمن وصلہا وصلتہ ومن قطعہا قطعتہ اور حدیث خلق اللّٰہ الخلق فلما فرغ منہ قامت الرحم فاخذت بحقوی الرحمن فقال مہ قالت ھذا مقام العائذ منک من القطیعۃ قال الا ترضین ان اصل من وصلک واقطع من قطعک قالت بلے ٰ یا رب قال فذاک اور حدیث الرحم شجنۃ من الرحمٰن فقال اللّٰہ من وصلک وصلتہ ومن قطعک قطعتہ اور حدیث الرحم معلقۃ بالعرش تقول من وصلنی وصلہ اللّٰہ ومن قطعنی قطعہ اللّٰہ " اس پر شاہد ہیں اور رحم کے اختصاص مذکور اور تعلق کی طرف مشیر ہیں تو اب نتیجہ یہ نکلا کہ معدن وجود اور منشائے وجود کے اتحاد کے باعث تو تمام بنی آدم میں رعایت حقوق اور حسن سلوک ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر کسی موقع میں کسی خصوصیت کی وجہ سے اتحاد میں زیادتی ہوجائے گی جیسے اقارب میں یا کسی موقع میں شدت احتیاج پائی جائے گی، جیسے یتامیٰ اور مساکین وغیرہ تو وہاں رعایت حقوق میں بھی ترقی ہوجائے گی، ان کے علاوہ جب حکم خداوندی بھی صاف آگیا کہ ارحام کے حقوق کی رعایت اور حفاظت رکھو تو اب تو اس کی تاکید انتہا کو پہنچ گئی۔ چناچہ اس سورت میں اکثر احکام اسی تعلق عام اور دیگر تعلقات خاصہ کے متعلق مذکور ہیں۔ گویا وہ احکام اس امر کلی کی جو کہ یہاں مذکور ہوا تفصیل ہیں۔2 یعنی تمہارے تمام احوال و اعمال سے واقف ہے اس کے حکم کی متابعت کرو گے تو ثواب پاؤ گے ورنہ مستحق عذاب ہوگے اور تمہارے تعلقات ارحام اور ان کے مراتب اور ہر ایک کے مناسب اس کے حقوق کو بھی خوب جانتا ہے اس لئے اس کے متعلق جو تم کو حکم دے اس کو حق سمجھو اور اس پر عمل کرو۔
Top