Tafseer-e-Usmani - Al-Israa : 56
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا
قُلِ : کہ دیں ادْعُوا : پکارو تم الَّذِيْنَ : وہ جن کو زَعَمْتُمْ : تم گمان کرتے ہو مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَلَا يَمْلِكُوْنَ : پس وہ اختیار نہیں رکھتے كَشْفَ : دور کرنا الضُّرِّ : تکلیف عَنْكُمْ : تم سے وَ : اور لَا : نہ تَحْوِيْلًا : بدلنا
کہہ پکارو جن کو تم سمجھتے ہو سوائے اس کے سو وہ اختیار نہیں رکھتے کہ کھول دیں تکلیف کو تم سے اور نہ بدل دیں9
9  یعنی ہم اپنے علم محیط کے موافق ہر ایک کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں۔ جس کو مناسب جانا آدمیوں میں سے پیغمبر بنایا۔ پھر جس پیغمبر کو چاہا دوسرے پیغمبروں پر کلی یا جزئی فضیلت عنایت کی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " یعنی بعضے نبی تھے کہ (امت کی حد سے زیادہ شرارتوں پر آخرکار) جھنجھلا گئے۔ آپ کا حوصلہ ان سے زیادہ رکھا ہے۔ (اور سب پر فضیلت دی ہے، لہذا آپ کی خوش اخلاقی اپنے مرتبہ عالی کے موافق ہونی چاہیے) اور خصوصیت سے داؤد کا ذکر کیا۔ کیونکہ دونوں چیزیں رکھتے تھے، جہاد بھی اور زبور بھی، سمجھانے کو (وفی الحدیث کان لَا یَفِرَّ اِذَا لَاقٰی) وہ دونوں باتیں یہاں بھی ہیں " قرآن اور جہاد۔ بعض نے کہا کہ یہاں " زبور " کا ذکر کر کے حضور کی فضیلت کلیہ اور امت محمدیہ کے فضل و شرف کی طرف اشارہ فرما دیا، کیونکہ حضور کے خاتم الانبیاء اور اس امت کے اشرف الامم ہونے پر زبور شریف کے مضامین مشتمل تھے۔ (وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء :105) یعنی محمدًا وامۃ المرحومہ۔
Top