Urwatul-Wusqaa - Nooh : 11
یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ
يُّرْسِلِ : بھیجے گا السَّمَآءَ : آسمان کو عَلَيْكُمْ : تم پر مِّدْرَارًا : خوب برسنے والا (بنا کر)
وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا
وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا 11 ؎ نوح (علیہ السلام) اپنے اللہ رب کریم کے سامنے اپنی دعوت کے الفاظ پیش کر رہے ہیں جن الفاظ سے انہوں نے اپنی قوم کو بلایا اور پکارا اور ان کو یہاں تک کہا کہ اگر تم میری دعوت کو قبول کرو گے تو میں اللہ رب ذوالجلال والاکرام سے اپیل کروں گا کہ وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے ، جس سے تمہاری دنیا سنورے گی اور تمہاری فصلیں پروان چڑھیں گی ، تمہارے باغات بار آور ہوں گے ، تم کو خوش حالیاں نصیب ہوں گی لیکن میری ان باتوں نے ان کو نفرت میں اور زیادہ کردیا اور وہ میرے قریب آنے کی بجائے مجھ سے دور ہی ہوتے چلے گئے۔ ایسا کیوں ہوا ؟ قابل غور بات ہے کہ جو باتیں ان سے نوح (علیہ السلام) نے کہیں ان میں سے وہ کونسی بات تھی جو ان کو نوح (علیہ السلام) سے دور کرتی چلی گئی اور وہ قریب آنے کی بجائے دور ہوتے چلے گئے۔ اگر تم ذرا غور کرو گے تو حقیقت کو پا لو گے کہ نوح (علیہ السلام) کی دعا کا ایک ایک فقرہ بتا رہا ہے کہ وہ ان کے نظریات کی تردید کر رہا تھا مثلاً وہ جو بات کرتے صرف اور صرف اللہ کے نام سے کرتے اور مشرکین کو جتنی نفرت اس نظریہ و عقیدہ سے ہے کہ ہر معاملہ میں اور ہر کام میں اللہ ہی کا نام لیا جائے شاید ہی کسی اور بات سے اتنی نفرت ہوگی۔ قرآن کریم ہی نے ہم کو بتایا ہے کہ مشرکین کے سامنے جب فقط ایک اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دلوں میں کتنی نفرت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ جب غیروں کا نام لیا جاتا ہے تو ان کو کس طرح خوشی ہوتی ہے اور وہ خوشی سے اچھل پڑتے ہیں۔ اس مضمون کو دیکھنا ہو تو عروۃ الوثقی ، جلد ہفتم میں سورة الزمر کی آیت 45 کی تفسیر دیکھیں اس لئے نوح (علیہ السلام) کی دعوت کا ایک ایک فقرہ ان کے غیظ و غضب کو بڑھاتا تھا اور وہ سنتے ہی اپنا کنٹرول کھو دیتے تھے۔ اگر اس کا اندازہ کرنا ہو تو آج کے مشرکوں کے سامنے صرف ایک اللہ کا ذکر کر کے اندازہ کرلو کہ ان کے چہروں پر کس طرح بل پڑتے ہیں اور غیر اللہ کے نعرہ سے ان کو کس طرح تقویت حاصل ہوتی ہے۔
Top