Urwatul-Wusqaa - As-Saff : 4
اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ يُحِبُّ الَّذِيْنَ : محبت رکھتا ہے ان لوگوں سے يُقَاتِلُوْنَ فِيْ : جو جنگ کرتے ہیں۔ میں سَبِيْلِهٖ : اس کے راستے (میں) صَفًّا : صف بستہ ہو کر۔ صف بنا کر كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ : گویا کہ وہ دیوار ہیں۔ عمارت ہیں مَّرْصُوْصٌ : سیسہ پلائی ہوئی
بلاشبہ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح قطار باندھ کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں
بلا شبہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں 4 ؎ اسلام صلح و آتشی کا دین ہے اور وہ امن و سلامتی کا داعی ہے ۔ قتل و غارت ، خونریزی اور بد امنی اس کے مزاج کے بالکل خلاف ہیں لیکن اس وقت میں بات اسلام کے مزاج کی کر رہا ہوں نہ کہ موجودہ مسلمان کے مزاج کی ۔ بدقسمتی سے ہم جب بھی دھیان کرتے ہیں تو جو بات اسلام کے مزاج کے خلاف پاتے ہیں وہ مسلمان کا مزاج بن کر رہ گئی دیکھتے ہیں اور جب اس بات کا ذکر کرتے ہیں تو پر پھیا میں کسی جاتی ہیں اور ہم کو برا بھلا کہا جاتا ہے کہ یہ ساون کا اندھا ہے اس لیے اس کو ہر طرف ہر اہی ہرا نظر آتا ہے ۔ ہاںٖ ! مجھے جو کہہ سکتے ہو کہہ لو لیکن خدا لگتی کہو ، ذرا عقل کے ناخن لو اور سوچ سمجھ کر بات کرو کہ جو ہم کہتے ہیں کیا یہ سچ نہیں ہے ؟ کیا یہ گروہ بندی اسلام کے مزا ج کے مطابق ہے ؟ کیا ہر ایک کا اپنے آپ کو صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھنا اور وہ بھی بغیر کسی دلیل کے اسلام کے مزاج کے مطابق ہے ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو کیا یہ ساری باتیں اس وقت مسلمانوں میں بدرجہ اتم موجود نہیں ہیں ؟ بلا شبہ اسلام نے جنگ اور جہادبالسیف کی اجازت دی ۔ نہیں ! بلکہ قومی زندگی کے لیے اس کو ضروری قرار دیا ہے لیکن اس کے لیے ضروری شرطیں بھی عائد کی ہیں اور اسی میں پہلی اور شرط اول امیر کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے لیے اولوالامر ایک ہو اور ایک کی موجودگی میں اگر کوئی دوسرا حکم دینا شروع کر دے تو اس کا سر قلم کردینے کا حکم دیا ہے۔ کیا یہ شرط عالم اسلام کے لیے اور اس سے نیچے اتر کر کسی ایک اسلامی مملکت کے لیے ضروری قرار دی گئی ہے ؟ باقی کو چھوڑ دو صرف آپ اپنے ملک پاکستان کی بات کرو کیا اس ملک عزیز میں ایک امیر مسلمانوں کا موجود ہے جس کے حکم سے ہم نے جہاد جاری کر رکھا ہے ؟ کیا اندرون ملک اسلام کا دور دورہ ہے اور یہ ملک من حیث القوم دوسرے ممالک کو اسلام کی طرف دعوت دینا چاہتا ہے ؟ کیا ہمارے ہاں جتنے مکاتب فکر ہیں ان سب مکاتب فکر ، پھر جس قدر گروہ تشکیل پا گئے ہیں اور جس طرح ہر گروہ نے اپنا اپنا ایک امیر تصور کرلیا ہے اور اس امیر کے ذریعہ سے جس طرح جہاد کی تحریکیں جاری ہیں کیا ان کا کوئی شرعی جواز موجود ہے ؟ کیا اسلام میں ان امیروں کی کوئی حیثیت ہے ؟ اگر ہے تو وہ کہاں ہے ( ھاتوابرھا لکم ان کنتم صدقین) بہر حال جہاد کی اول شرط کہ وہ سبیل اللہ ، اللہ تعالیٰ کی راہ میں ، اس کی رضا کے مطابق ہو اور اس کا مقصد حق کی سر بلندی اور باطل کی سر کو بی ہو ، نیکی کی قوتوں کو پھیلانا اور جہاں نیکی کی قوتیں پابند ہو کر رہ گئی ہوں ان کو آزاد کرانا ہے اور یہ کام ہر کافر نہیں بلکہ یک جماعتی اسلام کا ہے اور اس مقصد کے لیے اسلامی حکومت نے افواج اسلام کا سلسلہ چلایا ہے ، ان کو حکم ملنا چاہئے اور ان کو جہاد کے لیے تیار کر کے جہاد ان سے جاری کرانا اور جہاں جس طرح کے جہاد کی ضرورت ہو اس سے کام لینا فرض ہے اور عوام کو افواج اسلام میں ضرورت پڑے تو ان کے قواعد کے مطابق ان کو کمک پہنچانا چاہئے ، ان کے ساتھ تعاون لازم و ضروری ہے نہ یہ کہ ان کو بیرکوں میں بند کر کے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کے تحت منافقت سے کام لیتے ہوئے دین کے نام پر منافقت کو دین اسلام کا ایک عنصر بنا کر رکھ دینا چاہئے۔ لاریب مسلمانوں کے لیے ضروری ہے اور اسلام کی اہم ہدایت ہے کہ جب میدان کار زار میں اتر پڑیں تو جہاد کرنے کے لیے مسلمانوں کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح جسم و جان ہونا چاہئے اور پھر میدان جنگ میں کام آنا اتنا ضروری ہے کہ اگر زندگی رہی تو وہ غازی بن کر نکلیں ورنہ شہادت کا درجہ حاصل کرنا چاہئے ، بھاگنے کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے اور بد امنی کی شرارت کو ختم کرنے کے لیے جان لڑا دینا فرض اولین ہے لیکن اسلام کا جہاد بدامنی پھیلانے اور شرات کرنے کا نام بالکل نہیں جیسا کہ آج کل ہماری مذہبی اور سادسی جماعتیں دنیوی فوائد حاصل کرنے کے لیے نہلے پر دہلا مار رہی ہیں کہ نہ امن سے رہو اور نہ دوسروں کو رہنے دو اور اس طرح جو تمہارا امن برباد کرتے ہیں تم ان کا امن برباد کر دو ۔ ہرگز نہیں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو تمہارا امن برباد کرتے ہیں ان امن برباد کرنے والوں کو برباد کر دو تاکہ دونوں طرف امن قائم ہوجائے۔ گویا اسلام کہتا ہے کہ پاگل کو مارنے سے پہلے اس کی ماں کو مارو تاکہ وہ نت نئے پاگل پیدا نہ کرے۔ اس لیے اوپر مذکورہ آیت میں وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف اور صرف ان باہمت جوانمردوں سے محبت اور پیار کرتا ہے جن کی جنگ کی غرض وغایت محض حق کا بول بالا کرنا ہو اور جب وہ کسی میدان کا رزار میں معرکہ آراء ہوں تو ان میں انتشار اور افتراق کا نام و نشان تک نہ ہو ۔ بڑے منظم ہو کر دشمن کی طرف بڑھیں اور ان کی منظم پیش قدمی کو دیکھ کر دیکھنے والے باور کرلیں کہ یہ غیر منظر افراد کی بھیڑ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مضبوط اور مستحکم دیوار ہے جس میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال کر اس کو یکجان کردیا گیا ہے۔ اس جہاد کی ظاہری شکل و صورت نماز موقت تھی لیکن ہماری اس ظاہری صورت حال کا جو حال ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں اور اس کا ماحصل جو جہاد فی سبیل اللہ ہے اس کی صورت بھی سب کے سامنے ہے اور جو کچھ ہماری حکومت ، سیاسی پارٹیاں اور مذہبی جماعتیں کر رہی ہیں وہ بھی کسی کے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہمارا گروہی جہاد بھی سب کے سامنے ہے اور مذہبی فریضہ کی جس طرح ہم دھجیاں بکھیر رہے ہیں وہ بھی سب کو معلوم ہے اور ہماری طاقت وقوت اور سطوت کا جو حال ہے وہ بھی سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ جہاد کے لیے مانگا ہوا مال ہی ہے جو ہم نے زیب تن کر رکھا ہے اور وہی مال ہے جن سے ہم نے اپنے ذات بنک بیلنس (Bank Balance) تیار کر رکھے ہیں اور اگر کہیں جہاد کا مال نہیں پہنچ سکا تو وہاں ہم نے زکوٰۃ سے یہ فوائد حاصل کرنے کے لیے ایک اندھا اور کانا قانون اسلام ہی ملک میں قائم کر رکھا ہے اور اس طرح ہم نے سیسہ پگھلا کر اس مال کو مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں بند کر رکھا ہے تاکہ کسی فریب کے کام وہ نہ آسکے ۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔ اللہ تعالیٰ ہی سے دست بدعا ہیں کہ وہ ہم کو دین کے سمجھنے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی توفیق دے لیکن اس کا قانون یہی ہے کہ وہ محض ان لوگوں کو توفیق دیتا ہے جو خود اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قانون کی خلاف ورزی نہ کرتا ہے اور نہ ہی ہونے دیتا ہے۔
Top