Urwatul-Wusqaa - As-Saff : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو لِمَ تَقُوْلُوْنَ : کیوں تم کہتے ہو مَا لَا : وہ جو نہیں تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے
اے ایمان والو ! تم (ایسی باتیں زبان سے) کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو ؟ (یہ سراسر بد اخلاقی ہے)
اے ایمان والو ! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ 2 ؎ اسلام کی نظر میں جب تک انسان کا قول اور فعل دونوں ایک نہ ہوں ایمان مکمل نہیں ہوتا ۔ بلا شبہ اظہار ایمان کے لیے قول کی ضرورت ہے کہ قول زبان کا فعل ہے اور اگر زبان کسی کے پاس ہے تو اس کے سا تھ اقرار کرنا بھی ضروری ہے لیکن اس کے اقرار کی اس وقت کوئی قیمت نہیں رہتی جب اس کے قول و اقرار کی تصدیق اس کا عمل نہ کرے اور اگر کسی شخص کا فعل اس کے قول کے مخالف ہو تو نہ صرف یہ کہ اس کے قول کی کوئی قیمت نہیں رہتی بلکہ وہ الٹا مجرم ہوجاتا ہے اور یہ جرم کفر سے بھی زیادہ برا ہے یہی وجہ ہے کہ قوم و اقرار کرنے والے شخص کا فعل جب اس کے قول و اقرار کے خلاف ہوتا ہے تو اسلام کی زبان میں اس کو منافق کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور منافقت کو کفر سے بھی زیادہ برا سمجھا جاتا ہے اور بلا شبہ منافق کافر سے بھی برا ہوتا ہے ۔ افسوس کہ جو بات اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے پسند نہیں فرمائی اس کو ہمارے مفسرین خود رب کریم کی ذات کے لیے ضروری نہیں سمجھتے اور اللہ تعالیٰ کے قول اور فعل میں تضاد بیان کرتے ہیں اور اس بیان کو قدرت پر محمول کرتے ہیں حالانکہ یہ بات اتنی ہی غلط ہے جتنی کہ گدھے کے سر پر سینگ۔ حالانکہ سچی اور درست بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول اور فعل میں تضاد ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔ ؎ ایں خیال است و محال است و جنوں اللہ تعالیٰ کی ذات قول و فعل کے تضاد سے پاک ہے اور جو ایسی باتوں کو قدرت پر محمول کرتے ہیں وہ دانایان روزگار بالکل ناداں ہیں اگرچہ وہ اس بات کو تسلیم نہ کریں اور ظاہر ہے کہ جو شخص غلطی کرنے کے بعد اپنی غلطی کو تسلیم کرے اس کو آخر نادان کون کہہ سکتا ہے ؟ وہی تو دانائے روزگار ہے ۔ یہ بات آپ کو معلوم ہی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی قول ہے اور یہ ساری کائنات اور اس کا نظام اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے اس لیے دونوں میں تضاد ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔
Top