Urwatul-Wusqaa - As-Saff : 12
یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ یُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُۙ
يَغْفِرْ لَكُمْ : بخش دے گا تمہارے لیے ذُنُوْبَكُمْ : تمہارے گناہوں کو وَيُدْخِلْكُمْ : اور داخل کرے گا تم کو جَنّٰتٍ : باغوں میں تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ : ان کے نیچے سے نہریں وَمَسٰكِنَ : اور گھروں (میں طَيِّبَةً : پاکیزہ فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ : ہمیشگی کے باغوں میں ذٰلِكَ الْفَوْزُ : یہی ہے کامیابی الْعَظِيْمُ : بڑی
وہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور جنت جاوداں کے پاکیزہ مکانوں میں (داخل کرے گا) یہی بڑی کامیابی ہے
اللہ تمہارے گناہوں سے در گزر کرتے ہوئے ہمیشگی کے باغات میں داخل کر دے گا 12 ؎ انسان اور گناہ لازم و ملزوم ہیں ، اس سے مستثنیٰ ہیں تو صرف اور صرف وہ لوگ جن کو ملکوتی قوتوں کا اتنا غلبہ عطا کیا گیا ہے کہ انسان ہونے کے باوجود وہ معصوم قرار دے دیئے گئے ہیں اور بھول چوک جو اصل خاصہ انسان ہے وہ ان کے ساتھ بھی موجود ہے اگرچہ کم سہی ۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ ان قدسی وجودانسانوں کو مستثنیٰ کرنے کے بعد کوئی انسان ایسا ہو جس سے صدرور گناہ ممکن ہی نہ ہو ۔ نہیں نہیں یہ بات بالکل ممکنات میں سے ہے اس لیے اس کو ایمان کے منافی نہیں قرار دیا گیا بلکہ یہ عین ایمان ہے کہ انسان گناہ کرنے کے بعد اعتراف کرے اور وہ بھی اس مالک حقیقی کے سامنے جس سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ فرمایا اگر تم سچے دل سے ایمان لائو گے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے بنو گے اور وہ تجارت کرو گے جس میں فقط نفع ہی نفع ہے اور اس سلسلہ میں اندر کے شیطان کے پھندہ میں نہیں آئو گے تو تم سے جو انسانی کمزوریاں سر زد ہوں گی اللہ تعالیٰ وہ سب کی سب معاف کر دے گا اور پھر تم کو اس دنیوی زندگی کے گزارنے کے بعد ابدی زندگی عطا کرے گا اور اس زندگی کی ساری خوشحالیاں تم کو نصیب ہوں گی اور تم کو ایسے گھروں میں داخل کردیا جائے گا جو باغات کے اندر تعمیر کیے گئے ہیں اور باغات بھی ایسے جن میں نہ پانی کی کمی ہے اور نہ پھلوں کی اور وہ گھر کیا ہیں ؟ پاکیزگی کی ایک تصویر ہیں ، جس کا تخیل بھی تم اس زندگی میں قائم نہیں کرسکتے اور پھر وہ باغات بھی ایسے ہیں کہ جو سدا بہار ہیں اور ان میں صرف موسموں میں پھل نہیں لگتے بلکہ ان کے پھل ہر وقت ترو تازہ رہتے ہیں ۔ نہ تم کو ان باغات اور گھروں میں عارضی طور پر بسایا جائے گا اور نہ ہی یہ باغات اور گھر عارضی طور پر بنائے گئے ہیں بلکہ وہ تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں اب تم خود ہی غور کرو کہ یہ کامیابی کیسی کامیابی ہے۔ تم کو اقرار کرنا ہوگا کہ لاریب یہ بہت ہی بڑی کامیابی ہے کہ گناہو کا عوض بھی نہ دینا پڑا کیونکہ ان میں عزم و جزم نہیں تھا اور ساری کمزوریاں بھی مٹا دی گئیں اور گھر بھی وہ ملے جن کے لیے ہمیشگی ہے پھر اس کو بڑی کامیابی نہیں کیا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا ؟ لیکن آج ہماری حالت کیا ہے ؟ اور کس طرح ہم ان عارضی کامیابیوں پر ریجھ گئے ہیں اور ان کے لیے کتنی ہی تگ و دو کر رہے ہیں اور اصل کامیابی کی طرف ہم نے کبھی نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا بلکہ اس کا نام سن کر ہم ناک بھوں چڑھا دیتے ہیں ۔ اللہ ہم مسلمانوں کو حقیقت حال کے سمجھنے کی توفیق دے لیکن ہم کو آج جس نیلم پری کے تصور میں گم کردیا گیا ہے اس سے چھٹکارا شاید ہی کبھی ممکن ہو ؎ دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کو تو سمجھتا ہے کہ ہے آزادی کی یہ نیلم پری (اقبال (رح)
Top