Urwatul-Wusqaa - As-Saff : 13
وَ اُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا١ؕ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَّاُخْرٰى : اور دوسری چیز تُحِبُّوْنَهَا : تم محبت رکھتے ہو اس سے نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ : مدد اللہ کی طرف سے وَفَتْحٌ : اور فتح قَرِيْبٌ : قریبی وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ : اور خوش خبری دو مومنو کو
اور ایک دوسری چیز جو تم کو محبوب ہے اللہ کی طرف سے (ایک مخصوص) مدد اور جلد ہی فتح مندی (دی جائے گی) اور مومنوں کو یہ خوشخبری سنا دیجئے
13 ؎ وطن کی محبت اور کھوئی ہوئی چیز کے واپس ملنے سے انسان کو جو خوشی ہوتی ہے بلا شبہ وہ بھی دنیا کی خوشیوں میں سے ایک فطری خوشی ہے۔ وطن کی محبت اور کھوئی ہوی چیز کے واپس ملنے سے مراد ظاہر ہے کہ مکہ کا فتح ہونا ہی لیا جاسکتا ہے ۔ جن لوگوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا تھا اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکل گئے تھے اس وطن کو اور ان گھروں کو پھر خصوصاً بیعت اللہ کو جو آپ ﷺ کی بعثت سے قبل بھی ایک مبارک گھر خیال کیا جاتا تھا اور آپ ﷺ کی بعثت کے بعد بھی اس گھر کی برکت میں مزید کچھ اضافہ ہی ہوا تھا لیکن اس کی زیارت سے ان مسلمانوں کو محروم کردیا گیا تھا اس کی واپسی کی خبر دی جا رہی ہے اور بتایا گیا ہے کہ عنقریب تم کو یہ خوش خبری بھی دی جانے والی ہے اور جلد ہی تم لوگ ایک ایسی فتح حاصل کرو گے جس کے نتیجہ میں تم کو کھویا ہوا وطن واپس مل جائے گا ۔ اس خوش خبری نے مہاجرین کی ہمتوں کو کتنا بلند کیا ہوگا اور ان کو پہنچائے گئے مصائب کو کس حکمت سے دور کیا گیا یہ باتیں ان لوگوں سے پوچھنے والی ہیں جو کسی ایسی حالت سے دو چار ہوچکے ہیں آپ کو اور مجھے اس خوشخبری سے وہ لطف آ ہی نہیں سکتا جو ان کو آیا ہوگا جو وطن چھوڑ کر نکل آئے تھے اور اس کی یاد ان کو دن رات ستا رہی تھی ۔ اس ملک عزیز کے وہ باشندے جو دیار غیر میں روزی کمانے کے لیے نکل گئے ہیں اور ان ممالک میں وقت گزار رہے ہیں جن ممالک کی زندگیاں کم از کم دنیوی اعتیار سے ہمارے ملک سے زیادہ آسانی سے گزر رہی ہیں ۔ رزق کی بھی فراوانی ہے اور آسائش و آرام سے گزر بسر بھی ہو رہی ہے لیکن خون پسینہ سے کمایا ہوا رزق دے کر جب ان کو واپس وطن آنے کی جو خوشی ہوتی ہے وہ وہی جانتے ہیں جو ان ملکوں میں گئے ہوئے ہیں اور خصوصاً وہ لوگ جن کے بیوی ، بچے اور عزیز رشتہ دار سب اس ملک میں بس رہے ہیں ان کی محبت ان کو کس قدر ستاتی ہے اور اپنی کمائی کو وہ ملک میں واپس لا کر اور پھر اس کو خرچ کر کے کس قدر خوش ہوتے ہیں یہ باتیں ان ہی سے پوچھ لو جو تمہارے عزیز وطن واپس آتے ہیں ۔ بہر حال زیر نظر آیت میں صرف استعار تا ً بتایا گیا ہے کہ عنقریب مکہ فتح ہونے والا ہے اور پھر جوں ہی حدیبیہ کی صلح ہوئی تو اس خوشی کا راستہ صاف کھلا ہوا نظر آنے لگا یہی وجہ ہے کہ اس صلح کا نام ہی اسلام میں فتح رکھ دیا گیا اور آج تک یہ صلح اسی نام سے معروف ہے کیونکہ یہ صلح فتح مکہ کی طرف پہلی سیڑھی ثابت ہوئی اور ایک سال کی قلیل مدت کے بعد پابندی لگانے والوں نے خود مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی اور ظاہر ہے کہ یہ بات انہوں نے اپنی دلی رضا مندی سے قبول نہیں کی تھی بلکہ خاص مجبوری کے تحت تسلیم کی تھی اور یہ بات ان کو نظر آرہی تھی کہ اگر ہم نے اجازت نہ دی تو اب ان لوگوں کو اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے جو مدینہ سے نکل کر ہماری چوکھٹوں کے قریب آ بیٹھ گئے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے لیے کام کرنے والوں کے لیے نصرت عام کی بھی بشارت جگہ جگہ قرآن کریم میں دی گئی ہے اس کی وضاحت کے لے عروۃ الوثقیٰ جلد ششم سورة الحج کی آیت 40 کی تفسیر دیکھیں۔
Top