Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 89
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ١ۚ فَاِنْ یَّكْفُرْ بِهَا هٰۤؤُلَآءِ فَقَدْ وَ كَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِیْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے دی انہیں الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحُكْمَ : اور شریعت وَالنُّبُوَّةَ : اور نبوت فَاِنْ : پس اگر يَّكْفُرْ : انکار کریں بِهَا : اس کا هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ فَقَدْ وَكَّلْنَا : تو ہم مقرر کردیتے ہیں بِهَا : ان کے لیے قَوْمًا : ایسے لوگ لَّيْسُوْا : وہ نہیں بِهَا : اس کے بِكٰفِرِيْنَ : انکار کرنے والے
یہ وہ لوگ [ ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائی پھر اگر یہ نعمت سے انکار کرتے ہیں ، ہم نے ان کی حفاظت ایک ایسے گروہ کے حوالے کردی ہے جو سچائی سے انکار کرنے والا نہیں
ایک نبی و رسول کی قدر ، ناقدر نہیں جانتے تو اس کے قدرشناس بھی موجود ہیں : 136: وہ کون ہیں جن کو اللہ نے کتاب ، فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور نبوت جیسی نعمت دی لیکن انہوں نے اس نعمت کا شکر ادا کرنے کی بجائے ناشکری شروع کردی ؟ ظاہر ہے کہ یہ وہی لوگ تھے جن میں اللہ تعالیٰ نے کوئی رسول بھیجا اور اس رسول کو کتاب دی اور پھر جس کو کتاب دی گئی ظاہر ہے کہ اس کو فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی عطا فرمائی اور یہی وہ انعام ہے جو نبوت کے ساتھ خاص ہے تو گویا یہ سب کچھ اس قوم کو دیا گیا جس قوم میں وہ رسول مبعوث ہوا اور اس طرح نبی اعظم و آخر ﷺ کو کتاب ، فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور نبوت تینوں چیزیں وافر مقدار میں دے کر قوم قریش میں مبعوث فرمایا تو یہ انعام گویا پوری قوم قریش بلکہ مکہ والوں پر کیا گیا اس لئے کہ وہی مخاطبین اول تھے لیکن انہوں نے اس انعام خداوندی کی جو قدرو قیمت لگائی وہ سب کو معلوم ہے اگر وہ قدر شناس ہوتے تو اپنے رسول محمد ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کو فوراً قبول کرلیتے اور ان پر ابررحمت اس قدر برستا کہ وہ دین و دنیا میں کامیاب و کامران ہوجاتے لیکن وہ ناقدر شناس ثابت ہوئے کہ جس انسان کو وہ رسالت سے پہلے ” الامین “ اور ” الصادق “ اور خیر البشر “ کے ناموں سے یاد کرتے تھے اور اس کے فیصلوں کے سامنے ابو الحکم کہلانے والے بھی گھٹنے ٹیکتے تھے اور اس کی فراست اور علم و حکمت کے معترف تھے انہوں نے آپ کو نبوت کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی جادو گر ، ساحر ، شاعر اور مجنون جیسے خطابوں سے پکارنا شروع کردیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان ساون کے اندھوں کو ہرچیز سبز ہی نظر آنے لگی اور حقیقت میں یہ ان کا اپنا وہم تھا ورنہ اندھے کو کچھ نظر ہی کب آتا ہے ؟ آیت کا مطلب ہوا کہ جو لوگ یعنی جن کا اوپر بیان ہوا جن کو ہم نے آپ کی وساطت سے کتاب ، حکم اور نبوت کی نعمت سے سرفراز کیا یعنی مکہ والوں کو اور انہوں نے اس نعمت کی کوئی قدر نہ کی یعنی آپ ﷺ کو جھٹلانا شروع کردیا اور اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناقدری کی تو تم ان کی پروانہ کرو۔ ہم نے ایسے لوگوں کو اس کو ذمہ داری اٹھانے کے لئے مقرر کردیا ہے جو اس نعمت کا انکار کرنے والے نہیں ہیں۔ ” قوما “ سے مراد اس جگہ صحابہ کرام ؓ کی وہ جماعت بھی ہے جو اس وقت تک داخل اسلام ہوچکی تھی اور وہ لوگ بھی جن کے لئے بعد میں اس کے حاملین میں داخل ہونا مقدر تھا اگرچہ وہ ان آیات کے نزول تک اس جماعت میں داخل نہیں ہوئے تھے یعنی انصار کا وہ گروہ جو بعد میں مسلمان ہونے والا تھا۔ گویا آیت کے اس حصہ میں صحابہ ؓ کی استقامت اور مستقبل قریب میں امت کی کثرت کی پیش گوئی ہے اور اس لحاظ سے یہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے لئے ایک عظیم الشان بشارت ہے جو اس دور میں آپ کو سنائی گئی جب آپ ﷺ مخالفتوں کے طوفان سے گزر رہے تھے۔ ان الفاظ سے تقدیر الٰہی کے اس اٹل فیصلہ کا بھی اعلان کیا جا رہا ہے جو اس دعوت کو فتح مند کرنے کے لئے ہوچکا تھا اور یہ بات بھی واضح ہو رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں کو اس کام کے لئے کھڑا کردیا ہے ان کی قلت تعداد پر نہ جاؤ یہی لوگ اس دعوت کے علمبردار ہوں گے اور یہی قطرے ایک روز سمندر بن کر مدد جزو پیدا کریں گے۔ یعنی اگر کفار مکہ جن کو من حیث القوم کتاب حکمت اور نبوت سے نوازا گیا وہ ہماری آیات کو نہ مانیں اور دعوت اسلام کو قبول نہ کریں تو وہ اپنا ہی زیاں کریں گے۔ اسلام کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ اس دین حق کو قبول کرنے کے لئے اس کا پیغام دنیا کے گوشہ گوشہ تک پہنچانے کے لئے اور ہر قیمت پر اس کے پرچم کو بلند رکھنے کے لئے ہم نے ایک قوم مقرر کردی ہے جو انصار ومہاجرین اور دوسرے لوگوں پر مشتمل ہے۔ جمع صحابہ کرام ؓ کی جماعت کے لئے یہ آیت نص قطعی کا حکم رکھتی ہے جس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے کسی صحابی ؓ کے متعلق بدزبانی کا خیال پیدا کرنا بھی ایک مسلم کے لیے حرام قرار پاتا ہے۔
Top