Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 83
وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیْنٰهَاۤ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰى قَوْمِهٖ١ؕ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ
وَتِلْكَ : اور یہ حُجَّتُنَآ : ہماری دلیل اٰتَيْنٰهَآ : ہم نے یہ دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم عَلٰي : پر قَوْمِهٖ : اس کی قوم نَرْفَعُ : ہم بلند کرتے ہیں دَرَجٰتٍ : درجے مَّنْ : جو۔ جس نَّشَآءُ : ہم چاہیں اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب حَكِيْمٌ : حکمت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور دیکھو یہ ہماری حجت ہے جو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) ! کو اس کی قوم پر دی تھی ہم جس کے مرتبے بلند کرنا چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں اور یقینا تمہارا پروردگار علم عطا کرنے والا ہے
یہ وہ دلائل تھے جو ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کو قوم کے خلاف اللہ نے دیئے تھے : 130: قوم کو شرک کی دلدل سے نکالنے کے لئے یہ وہ عیمے الشان دلیل تھی جو اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے معبود ان باطل خواہ ارضی تھے یا سماوی کے خلاف عطا فرمائی اور اس طرح انہوں نے اپنی قوم کے مناظرہ میں کھلی فتح پائی اور پوری قوم کو لاجواب کردیا۔ فرمایا یہ ہمارا انعام تھا کہ ان کو صحیح نظریہ عطا کیا پھر اس کے واضح دلائل وبراہین بھی بتلا دیئے اور معجزانہ طور پر ان کو روحانی مشاہدہ بھی کرادیا۔ بغیر اللہ تعالیٰ کی امداد و اعانت کے نری عقل انسانی ادراک حقائق کے لئے کافی نہیں جس کا مشاہدہ ہر دور میں ہوتا رہتا ہے کہ بڑے بڑے ماہر فلاسفر گمراہی کے راستہ پر پڑجاتے ہیں اور بہت سے ان پڑھ جاہل صحیح عقیدہ و نظریہ کے پابند ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو دلائل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کے سامنے بیان کئے ہیں وہ ابراہیم (علیہ السلام) کا صرف فکری ارتقاء نہیں تھا بلکہ وہ دلائل وبراہین تھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی و رسول بنائے جانے کی وجہ سے عطائے خداوندی تھے اور آپ کو اپنی قوم کے نظریات کے خلاف دیئے تھے۔ آپ کی یہ تحریک ایک مدت تک جاری رہی ان سماوی معبود ان باطل کے بعد آپ نے ارضی معبودان باطل کے خلاف بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی براہین کو استعمال کیا ہے اور ان کو اس طرح ساکت ، حیران اور ششدر کر کے رکھ دیا کہ وہ مخبوط الحواس ہو کر غیر انسانی حرکات پر اتر آئے اور آپ کو زندہ جلا دنے کی خفیہ سکیمیں سوچنے لگے اور انجام کار ان کی آنکھوں میں دھول ڈال کر اللہ نے اپنے رسول ابراہیم (علیہ السلام) کو علاقہ عراق سے ہجرت کر جانے کا حکم صادر فرمایا اور آپ نے اپنا آبائی وطن چھوڑ کر شام و دمشق کو ہجرت فرمائی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی مخالفت کے اس دروازہ کو بند کر کے آپ کو امن و سکون کی زندگی عطا فرمائی اور نبوت کے اجراء کے لئے آپ کی نسل کو بڑھا کر نبوت کو اس نسل کے ساتھ خاص کردیا جو اس علاقہ میں نبی و رسول آئے آپ ہی کے حسب و نسب کے ساتھ ان کا تعلق قائم تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کفار کی بستی سے جو ہزار ہا خداؤں کے پجاری تھے اور گمراہی کی پستیوں میں گھرے پڑے تھے ان میں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو توحید کا علمبردار بنا دیا اور اس کے سینے کو علم و فہم اور دلائل کی روشنی سے منور کردیا اور دنیا و آخرت میں اس کا نام اور اس کی شان بلند کردی۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور طاقت ہے اس نے یہ سب کچھ نبی آخر الزمان ﷺ پر وحی فرما کر آپ ﷺ کو یہ بات سمجھا دی کہ تیرا رب تیرے ساتھ بھی وہی سب کچھ کرنا چاہتے ہے اور انہی انعامات کی بارش برسانا چاہتا ہے جو تیرے سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) پر برسا چکا۔ اس لئے آپ ﷺ اللھم صلی علی محمد وآل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم کی صدائیں بلند کریں اور اپنی قوم کے مقابلہ میں وہی کام جاری رکھیں جو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے مقابلہ میں جاری رکھا۔ تیری زبان اور تیرا ہاتھ برابر اپنا کام جاری رکھیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں اور آپ ﷺ نے وہی کچھ کیا جو آپ ﷺ کو حکم دیا گیا تھا اور پھر نتیجہ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
Top