Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 82
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا : نہ ملایا اِيْمَانَهُمْ : اپنا ایمان بِظُلْمٍ : ظلم سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمُ : ان کے لیے الْاَمْنُ : امن (دلجمعی) وَهُمْ : اور وہی مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
جن لوگوں نے اللہ کو مانا اور اپنے ماننے کو ظلم سے آلودہ نہ کیا تو انہیں کے لیے امن ہے اور وہی ٹھیک راستے پر ہیں
جو لوگ ایمان لائے اور شرک کی دلدل میں نہ پھنسے راہ انہیں کی درست ہے : 129 : اب ارشاد فرمایا کہ عذاب الٰہی سے مامون و مطمئن صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائیں اور پھر اپنے ایمان میں کسی ظلم کی ملاوٹ نہ کریں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوتی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہت پریشان ہوئے اور نبی اعظم و آخر ﷺ کی خدمت میں عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم میں سے کون ہے جس نے آپ پر ظلم نہ کیا ہو ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس جگہ ظلم سے مراد ہر گناہ نہیں بلکہ اس سے مراد (شرک) کا خاص گناہ ہے۔ چناچہ قرآن کریم نے دوسری جگہ شرک کو ہی ظلم عظیم قرار دیا ہے فرمایا ( ان التشرک لظلم عظیم) اس لئے آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ جو شخص ایمان لائے اور ایمان لانے کے بعد پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کسی کو شریک ٹھہرایا تو وہ عذاب سے مامون نہیں رہے گا۔ خلاصہ آیت کا یہ ہوا کہ انسانوں یعنی نبیوں ، ولیوں ، بزرگوں اور اللہ کے نیک بندں کو یا ان کے مجسمے بنا کر انکے بتوں کو ، پتھروں ، درختوں ، ستاروں ، چاند و سورج اور دریاؤں وغیرہ کو پوجنے والی مخلوق اپنی بیوقوفی سے ان سب کو بااختیار سمجھتی ہے اور ان کی عبادت چھوڑنے سے اس لئے ڈرتی ہے کہ کہیں یہ چیزیں ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے گرو کی بات ان کو بتلادی کہ خدائے قدوس جو تمہارے ہر کام سے باخبر بھی ہے اور تمہارے ہر برے بھلے پر قادر بھی ہے اس سے تو تم ڈرتے نہیں کہ اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے کوئی مصیبت ہر برے بھلے پر قادر بھی ہے اس سے تو تم ڈرتے نہیں کہ اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے کوئی مصیبت آجائے گی اور جن چیزوں میں نہ ذاتی علم ہے نہ ذاتی قدرت ان سے ایسا ڈرتے ہو ؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شرک صرف یہی نہیں کہ کھلے طور پر مشرک و بت پرست ہوجائے بلکہ وہ آدمی مشرک ہے جو اگرچہ کسی بت کی پوجا پاٹ نہیں کرتا اور کلمہ اسلام بھی پڑھتا ہے مگر کسی فرشتہ یا رسول یا ولی اللہ کو اللہ کی بعض صفات خاصہ میں شرک ٹھہراتا ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کے لئے سخت تنبیہہ ہے جو اللہ کے رسولوں اور خصوصاً سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی خاص صفتوں یعنی پیدا کرنے ، اندھوں کو بینا کرنے ، کوڑھیوں کو چنگا کرنے ، بہروں کو کان دینے ، مردوں کو زندہ کرنے اور غیب کی خبروں سے مطلع کرنے کے ان استعارات و تمثیلات کو اصل پر محمول کر کے خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ کسی کو شریک کرنے کی کبھی اجازت نہیں دیتا اس لئے ان کو ” باذن اللہ “ ایسا کرنے کی توجیہہ کبھی درست نہیں ہو سکتی۔ ہاں ! ان انسانبوں کو جو اپنی انسانیت کھو چکے ہیں صحیح انسان بنانے اور کفر و شرک کے اندھیروں میں گم ہونے والوں کو اس سے نکالنے ، مطلب کی سننے اور نہ مطلب کی باتوں سے کان بند کرنے والوں کو سنانے ، کفر کی موت والوں کو زندہ کرنے اور شریعت اسلامی کے خلاف کمائی کرنے والوں کو قانون اسلام کے مطابق کمانے اور خرچ کرنے کی تعلیم دینے کے لئے نبی و رسول آتے رہے اور یہ مقصد سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کا بھی تھا اور یہ سارے کام نبی و رسول کے ہاتھوں اس وقت سر انجام پا سکتے ہیں جب اذن الٰہی بھی ہو اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے اذان خاص سے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی یہ سارے کام کر دکھائے جس کے لئے ان کو رسول بنا کر مبعوث کیا گیا تھا۔ افسوس کہ زبان سے نبیوں اور ولیوں کی پرستش سے روکنے والوں اور انکو خدا کا شریک بنانے سے منع کرنے والوں نے بھی اس شرک کو روا رکھا اور اس طرح خدائی کے اختیارات ان کے حوالے کردیئے اور اس پر یہ نہ کہا کہ ” نعوذ باللہ منہ “ اور پھر تعجب ہے کہ شرک کی اس دلدل میں پھنسنے والے اپنے آپ کو شرک کی آلودگی سے پاک سمجھتے ہیں اسی کو کہتے ہیں کہ ” بلی سوچو ہے کھا کر مکہ کی حاجن ہوئی۔ “ خود شرک کرتے جانا اور دوسروں کو مشرک کہتے جانا کہاں کی دیانت ہے۔
Top