Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُرِيْٓ : ہم دکھانے لگے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم مَلَكُوْتَ : بادشاہی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلِيَكُوْنَ : اور تاکہ ہوجائے وہ مِنَ : سے الْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور اس طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت کے جلوے دکھا دیئے تاکہ وہ یقین رکھنے والوں میں سے ہو جائے
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس معراج کا ذکر جس میں ان کو آسمانوں اور زمین کی سیر کرائی گئی : 121: زیر نظر آیت میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اس معراج کا بیان شروع ہوا جو آپ (علیہ السلام) نے نبوت پر فائز ہوتے ہی کرلی تھی اور آپ ﷺ کو دوسرے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرح آسمان و زمین کی سیر کرادی گئی جس سے آپ (علیہ السلام) کا ذہن اور فکر اس قدر کھل گیا کہ آپ ہرچیز کی حقیقت پر غور کرنے لگے اور آسمان و دنیا و مافہیا میں جو کچھ ہے اس سے اللہ کی وحدانیت آپ (علیہ السلام) کو دکھائی دینے لگی اور سارے حجاب کھول دیئے گئے اور آپ (علیہ السلام) نے سب کچھ بصیرت کی آنکھ سے اس طرح روشن دیکھا جیسے بصارت کی آنکھ کسی چیز کا مشاہدہ کرتی ہے اور بصیرت کی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ بصارت سے اتنا صاف اور اتنا اور اتنا واضح نظر نہیں آتا ، کیوں ؟ اس لئے کہ مشاہدہ میں غلطی کا امکان ہے اور بصیرت میں وہ امکان نہیں ہوتا اس لئے بصیرت کا دیکھنا بصارت کے دیکھنے سے بہر حال قوی اور مبراعن الخطا ہوتا ہے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی زندگی کے سارے واقعات اس پر شاہد ہیں جو انہوں نے اس زندگی میں بطبر نصیرت دیکھے اور الٰہی فیضان نے ان کو دکھائے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ جلال خداوندی کے انوار و تجلیات ہر لمحہ ضوافشاں ہیں لیکن عام انسانی روح کسی نہ کسی حجاب کے باعث ان کے مشاہدے سے محروم رہتی ہے جیسے جیسے کسی کا حجاب ہٹتا ہے ویسے ہی انوار کا مشاہدہ شروع ہوجاتا ہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے حکم الٰہی اور طاقت خداوندی سے جب تمام حجابات کو تار تار کردیا اور انوار الٰہی کے مشاہدوں میں کوئی آڑ باقی نہ رہی تو زمین و آسمان کی بےکراں وسعتوں میں قدرت خداوندی کے جو اسرار تھے سب آپ پر ظاہر ہوگئے اور بصیرت ابراہیمی (علیہ السلام) پر ہرچیز منکشف کردی گئی۔ (کبیر) قرآن کریم کے بیان کے مطابق جب اس جلیل القدر ہستی پر اللہ تعالیٰ کے جود و کرم اور عطا و نوال کا فیضان بےغایت و بےنیایت سرعت رفتار کے ساتھ ہو رہا تھا تو اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے انبیاء (علیہم السلام) کی صف میں نمایاں جگہ پائی اور اس کی دعوت و تبلیغ کا محور و مرکز ” دین حنیف “ قرار دیا۔ اس نے جب یہ دیکھا کہ قوم شخصیت پرست کے نتیجہ میں بت پرستی ، ستارہ پرستی ، چاند پرستی ، سورج پرستی بلکہ مظاہر پرستی میں اس قدر منہمک ہے کہ خدائے برتر کی قدرت مطلقہ اور اس کی احدیث صمدیت کا تصور بھی ان کے قلوب میں باقی نہیں رہا اور ان کے لئے اللہ کی وحدانیت کے عقیدہ سے زیادہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی تب اس نے کمر ہمت چست کی اور ذات واحد کے بھروسہ پر ان کے سامنے دین حق کا پیغام رکھا اور اعلان کیا کہ اے قوم ! یہ کیا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش میں مشغول ہو حالانکہ جن لوگوں کے تم نے یہ بات بنائے ہیں وہ خود بھی ان چیزوں سے بیزار تھے تم کس قدر خواب غفلت میں ہو کہ بےجان لکڑی اور پتھر کو اپنے آلات سے گھڑکر مجسمے تیار کرتے ہو حالانکہ جن کے تم یہ مجسمے تیار کرتے ہو وہ اپنے جسموں کی حفاظت بھی نہ کرسکے پھر انہی کی تم پرستش کرتے ہو جن کے یہ بت بنا کر رکھ لئے ہیں کیا وہ مخلوق نہیں تھے ؟ اور کبھی مخلوق بھی خالق و رازق ہو سکتی ہے ؟ تم اس خرافات سے باز آؤ اور اللہ کی توحید کے نغمے گاؤ اور اسی ایک مالک حقیقی کے سامنے سر نیاز جھکاؤ جو میرا ، تمہارا اور کل کائنات کا خالق ومالک ہے۔ مگر قوم نے اس کی آواز پر مطلق کان نہ دھرا اور چونکہ گوش حق نیوش اور نگاہ حق بیں سے محروم تھی اس لئے اس نے جلیل القدر پیغمبر کی دعوت حق کا مذاق اڑایا اور زیادہ سے زیادہ تمردو سرکشی کا مظاہرہ کیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے کہ شرک کا سب سے بڑا مرکز خود ان کے اپنے گھر میں قائم ہے اور آزر کی بت سازی وبت پرست پوری قوم کے لئے مرجع و محور بنی ہوئی ہے اسلئے فطرت کا تقاضا ہے کہ دعوت حق اور پیغام صداقت کے ادائے فرض کی ابتداء گھر ہی ہونی چاہئے۔ اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنے والد آزرہی کو مخاطب کیا اور فرمایا : اے باپ ! خدا پرستی اور معرفت الٰہی کے لئے جو راستہ تو نے اختیار کیا ہے اور جس کو آباء و اجداد کا قایم راستہ بتلاتا ہے یہ سراسر گمراہی ہے اور باطل پرستی کی راہ ہے اور صراط مستقیم اور راہ حق صرف وہی ہے جس کی دعوت میں دے رہا ہوں ، اے باپ ! توحید ہی سرچشمہ ہدایت ہے یہ کس بات کا نتیجہ تھا ؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ ” ملکوت السموار والارض “ کی سیر روحانی کا جو ابراہیم (علیہ السلام) کو کرائی گئی تھی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی اس تبلیغ کا باپ پر ذرا بھی اثر نہ ہوا لیکن آپ نے باپ کی سختی کا جواب مطلق سختی سے نہیں دیا اور نہ ہی تحقیر و تذلیل کا رویہ استعمال کیا بلکہ نرمی اور ملاطت اور اخلاق کریمانہ کے ساتھ پیش آتے رہے۔ باپ اور بیٹے کے درمیان جب اتفاق کی کوئی صورت نہ بنی اور آزرنے کسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی رشد و ہدایت کو قبول نہ کیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آزر سے تبلیغ کا منہ موڑ کر اپنی دعوت حق اور پیغام رسالت کو وسیع کردیا اور اب صرف آزر ہی مخاطب نہ رہا بلکہ پوری قوم کو مخاطب بنا لیا مگر قوم اپنے باپ دادا کے دین کو کب چھوڑنے والی تھی اس نے بھی ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک نہ سنی اور دعوت حق کے سامنے اپنے باطل معبودوں کی طرح اندھے ، بہرے اور گونگے بن گئے۔ ان کے کان موجود تھے مگر حق کی آوزا کے لئے بہرے تھے۔ پتلیاں آنکھوں کے حلقوں میں زندہ انسانوں کی آنکھوں کی طرح حرکت ضرور کرتی تھیں مگر حق کی بصارت سے محروم تھیں۔ زبان گویا ضرور تھی لیکن کلمہ حق کے اعتبار سے گنگ تھی۔ ا س مشاہدہ ٔ بصیرت اور سیر روحانی کے بعد سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کے سارے شخصیت پرستوں ، بت پرستوں ، ستارہ پرستوں ، چاند پرستوں اور سورج پرستوں اور مظاہر پرستوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا ، یہ اعلان کیا تھا ؟ یہی کہ سارے کے سارے مل کر بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس طرح آپ کی تبلیغ اب صرف اپنے والد تک محدود نہ رہی بلکہ قوم کے ہر فرد کو مخاطب کرلیا گیا ان کے آپس کے سینکڑوں اختلاف تھے وہ ستارہ پرست اپنے دلائل پیش کرتے اور چاند پرست اپنے دلائل بیان کرتے اور اس طرح سورج پرست اپنے دلائل ان کے سامنے رکھتے اور ان کے دلائل رد کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے۔ اللہ کے بندے نے جب سب کو مخاطب کرلیا تو وہ سب مل کر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اکٹھے ہوگئے۔ آپ نے بھی اس اکٹھ اور اجتماع کی کوئی حقیقت نہ سمجھی اور ان سب کو دعوت دی کہ تم باری باری اپنے دلائل دے سکتے اور میرے دلائل سن سکتے ہو تو آجاؤ اور ایک ایک کر کے اپنے بازو آزمائے جاؤ ۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آپ کے مقابلہ کے لئے ستارہ پرستوں نے ہمت باندھی اور وہی مقابلہ پر اترے۔ لیکن قرآن کریم نے ان سب کا مختصر ذکر علی الرتیب کردیا اور ایک ہی نشت میں ان سب کے سوال و جواب کو بیان کردیا اور سب کی طرف اشارات کردیئے کہ ان کے پاس کوئی وزنی دلیل ان کی پرستش کی نہ تھی اس لئے وہ زیادہ دیر تک سوال و جواب کا سلسلہ قائم نہ رکھ سکے اور پہلے ہی جواب میں چت ہوتے چلے گئے۔ اب ان سوال و جواب کا ذکر کیا جاتا ہے۔
Top