Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 74
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً١ۚ اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو اٰزَرَ : آزر اَتَتَّخِذُ : کیا تو بناتا ہے اَصْنَامًا : بت (جمع) اٰلِهَةً : معبود اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكَ : تجھے دیکھتا ہوں وَقَوْمَكَ : اور تیری قوم فِيْ ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اور دیکھو جب ایسا ہوا تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا کیا تم بتوں کو معبود مانتے ہو ؟ میرے نزدیک تو تم اور تمہاری قوم کھلی گمراہی میں مبتلا ہو
وہ وقت یاد کرو جب ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ آزر کے معبود ان باطل سے بیزاری کا اظہار کر رہا تھا : 120: ابراہیم (علیہ السلام) ان انبیائے کرام (علیہ السلام) سے ہیں جن کی نبوت کا اقرار دنیا کی ساری بڑی قوموں کو ہے۔ عرب کے مشرک ہوں یا قوم یہود اور نصاریٰ سب کے سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عظمت و جلالت ، شان اور رسالت کے معترف تھے اور اہل عرب کو اس پر ناز تھا کہ وہ اس مقدس ہستی کی اولاد ہیں۔ اس لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے حالات پیش کر کے ان سب کو بتایا جا رہا ہے کہ تم عجیب قسم کے ستم ظریف ہو کہ جس کے نام سے تمہیں یہ ساری عزت اور سروری نصیب ہے ، جس کی نسل سے ہونے کو تم اپنے لئے عزت وافتخار سمجھتے ہو اس کے دین اور مقصد حیات سے تم بالکل بیگانگی اختیار کرچکے ہو بلکہ اس گمراہی کو اپنا دین بنا کر بیان کرتے ہو جس کو مٹانے کے لئے انہوں نے عمر بھر جہاد کیا۔ جن شخصیتوں کے بتوں کو انہوں نے زیرہ ریزہ کر کے پورے علاقہ میں اپنیے خلاف آگ کے الاؤ جلوا لئے تھے اور اس آگ میں جلنے کے لئے وہ تیار ہوگئے۔ آج تم پھر انہی شخصیتوں کے بتوں کو پوجنے والے ہو گیے اور جب ان کے لائے ہوئے دین حنیف کی طرف تم کو دعوت دی جاتی ہے تو تم خشم گئیں اور غضب ناک ہو کر اس دعوت دینے والے کے لئے ویسے ہی آتش کدے تیار کرتے ہو۔ تمہاری کھوپڑی بھی بڑی عجیب ہے کہ نام بھی ان کا لئے جاتے ہو اور کام بھی ان ہی کی تعلیم کے خلاف کرتے ہو اور انہی معبودان باطل کے سامنے سجدہ ریز ہو جن سے وہ ساری زندگی بیزار رہے اور جن کاموں کے لئے وہ کمر بستہ تھے ان کے قریب جانے کے لئے بھی تم تیار نہیں ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اصل کام دنیا کو اللہ کی اطاعت کی طرف بلانا اور اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کے مطابق انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نظام درست کرنا تھا۔ وہ خود اللہ کے مطیع تھے۔ اس کے دیئے ہوئے علم کی پیروی کرتے تھے۔ دنیا میں اس علم کو پھیلانے والے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ سب انسان مالک کائنات کے مطیع و فرمانبردار ہو کر رہیں۔ یہی خدمت تھی جس کے لئے وہ دنیا کے امام و پیشوا بنائے گئے تھے۔ ان کے بعد یہ امامت کا منصب ان کی نسل کی اس شاخ کو ملا جو حضرت اسحٰق اور یعقوب سے چلی اور بنی اسرائیل کہلائی۔ اسی شاخ میں انبیائے کرام ہوتے رہے اور آج تم بنی اسرائیل کہلانے والے ہی اپنے محسن اعظم اور جدا امجد سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے دین حنیف سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہو اور پھر تعجب ہے کہ آج بھی تم انہی کا نام لئے جا رہے ہو اور اپنے آپ کو ابراہیمی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہو۔ یہ دوہری پوزش تم نے کہا سے حاصل کرلی کہ مخالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لو اور نام بھی انہیں کے لئے چلے جاؤ ؟ دیکھو اس وقت جو دنیا میں نبی اعظم و آخر ﷺ مبعوث ہوئے ہیں ان کا تعلق بھی ابراہیم (علیہ السلام) ہی سے ہے کل تک ہر آنے والا نبی بنی اسرائیل میں سے تھا اور آج یہ آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ کا تعلق بھی ابراہیم (علیہ السلام) ہی سے ہے۔ فرق کیا ہے ؟ صرف یہ کہ یہ بنی اسرائیل میں سے نہیں بلکہ بنی اسماعیل میں سے ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے بڑے فرزند ارجمند اور ایک جلیل القدر نبی تھے۔ قرآن کریم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام آزر بتایا ہے اور عربی توریت میں ان کا نام ” تارح “ ملتا ہے اور انگریزی میں اس کو تیرا ” terah “ اور تالمود میں تراء کا تلفظ ملتا ہے۔ جو لوگ علم اللسان کے مبادی سے بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک ہی نام مختلف زبانوں میں جا جا کر کیسے کیسے عجیب تلفظ اختیار کرلیتا ہے۔ فلسطین کے قدیم مسیحی مورخ یوسیس (264 تا 340) کے ہاں ” آشر “ یا ” ہاتھر “ آیا ہے اور ان کی مشابہت و مماثلث آزرے سے بالکل ملتی جلتی ہے۔ قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے آپ کے والد کا نام ” آزر ‘ ‘ لیا ہے لیکن کچھ گمراہ فرقے اپنے مخصوص عقائد کے تحفظ و پشت پناہی کی خاطر بڑی مدت سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ ” آزر “ ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام نہیں بلکہ چچا کا نام تھا۔ لیکن ان میں سے کسی کے پاس بھی کوئی خاص دلیل موجود نہیں بلکہ بےپر کی ہانکے جا رہے ہیں۔ لیکن کوئی قوم جب کسی چیز کو عقیدہ میں داخل کرلیتی ہے تو وہ کتنی ہی بودی بات کیوں نہ ہو اس کو بیان کرتے ہی چلی جاتی ہے اور اس کے پاس سب سے بڑی دلیل یہی ہوتی ہے کہ یہ بات تو ہمارے باپ دادا بیان کرتے چلے آرہے ہیں اور وہ اس دلیل کو ہزاردلولاں سے بھی وزنی مانتے اور تصور کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے باپ دادا سے سنی ہوتی ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر عروہ الوثقیٰ جلد اول تفسیر سورة البقرہ کی آیت 124 سے 136 تک بیان کیا گیا ہے وہاں سے ملاحظہ فرما لیں۔
Top