Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 3
وَ هُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ١ؕ یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ اللّٰهُ : اللہ فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور فِي الْاَرْضِ : زمین میں يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے سِرَّكُمْ : تمہارا باطن وَجَهْرَكُمْ : اور تمہارا ظاہر وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا تَكْسِبُوْنَ : جو تم کماتے ہو
وہی اللہ ہے آسمانوں کا بھی اور زمین کا بھی ، تمہاری چھپی اور کھلی ہر طرح کی باتوں کا علم رکھتا ہے ، تم جو کچھ کرتے ہو وہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں
اللہ وہ ذات ہے جو انسانوں کی ہر بات سے واقف ہے اور کوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں : 5: وَ ہُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ 1ؕ ” وہی اللہ ہے آسمانوں کا بھی اور زمین کا بھی “ ” ھومبتدا اللہ “ ، خبر اور ” فی السموات الخ “ اللہ کے متعلق۔ پچھلی آیات کی مزید تفصیل فرمادی کہ زمین و آسمان کی ہرچیز کا خالق ومالک زندہ کرنے والا ، مارنے والا ، رزق دینے والا ، زندگی کی ساری ضرورتیں پوری کرنے والا اور امور کا ئنات کی تدبیر کرنے والا بغیر شرکت غیرے وہی اللہ تعالیٰ ہے۔ زیر نظر آیت نے ساری مشرک قوموں کا رد کردیا جو مختلف اغراض کے لئے الگ الگ دیوتا قرار دیتے ہیں ۔ امام رازی (رح) نے اس آیت پر شبہ پیدا کیا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی تجسیم ثابت ہوئی ہے پھر اپنی عادت کے مطابق اس کے بہت سے جواب دیئے ہیں جو اس تجسیم کے رد میں ہیں۔ یہ تجسیم کہاں سے نکل آئی ؟ ” فی السموات “ اور ” فی الارض “ کی ” فی “ سے ۔ اس سے کیا شبہ پیدا ہوا ؟ کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں یا زمنہ میں کہیں بیٹھا ہے ۔ یا کسی مقام پر ضرور موجود ہے۔ یہ شبہ پیدا کیوں ہوا ؟ اس لئے ” فی “ کا ترجمہ ” میں “ کیا گیا حالانکہ ” فی “ کا ترجمہ ” میں ‘ ‘ کی بجائے ” کا “ کرلیا جاتا تو یہ شبہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ مطلب یہ ہوا کہ آسمانوں اور زمین سب کا خدا وہی ایک ہے نہ یہ کہ ہر عالم کے دیوتا الگ الگ ہوں۔ زیر نظر آیت اس سورة مبارکہ کی تیسری آیت ہے ۔ پہلی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کا بیان تھا اس آیت میں اس کے علم محیط کا ذکر ہو رہا ہے یعنی وہ اتنا ہمہ دان اور ہمہ بین ہے کہ کوئی چیز اس کے علم سے پوشیدہ نہیں۔ ہمارے دلوں کے پوشیدہ احساسات ، ہماری زبانوں سے نکلے ہوئے کلمات اور ہمارے سب چھوٹے بڑے ، نیک و بدعمل اس کے احاطہ علم میں ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگر ان صفات میں کسی انسان نے کسی دوسرے کو شامل کرلیا یعنی یہ کہ ہمارے دلوں کے پوشیدہ احسانات وغیرہ کو کوئی دوسرا بھی جانتا ہے خواہ وہ اللہ کا کوئی نیک بندہ یعنی نبی و رسول ہو یا کوئی ولی اللہ یا کوئی دوسرا پیر و مرشد تو اس طرح سمجھ کر گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی دوسرے کو شریک سمجھ لیا۔ وہ زبان سے باربار اس کی تکذیب کرے اور اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک لہ ، کہتا رہے لیکن شرک کا وہ مرتکب ہوگیا۔ اس لئے اس جگہ مشرک اقوام اور مشرک افراد کو بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تو وہ ہے جس کی قدرت بےپایاں اور جس کا علم محیط ہو۔ تمہارے معبود نہ تو قادر و توانا ہیں ، نہ علیم و دانا تو پھر اے عقل کے دشمنو ! وہ معبود اور خدا کیونکر ہو سکتے ہیں اور تم نے جو عقیدے ان کے متعلق گھڑے ہیں ان کی اصل کیا ہے ؟ انسانوں کی ساری احتیاجوں سے واقف ہے کوئی بات اس کے علم سے باہر نہیں : 6: جب ہر ایک چیز کا وہ اکیلا پیدا کرنے والا ہے اور سارے انسانوں کو بھی اسی نے تخلیق کیا ہے تو وہ ان کی احتیاجوں سے کیوں واقف نہیں ہوگا ؟ یقیناً وہ سارے انسانوں کی احتیاجوں سے واقف ہے اور ان کی احتیاجوں کو پورا بھی کرتا ہے بلکہ وہ اتنا دانا ہے کہ اس نے انسانوں کی ساری احتیاجوں کو پہلے پورا کرنے کا بندوست فرمایا اور اس بندوبست کے بعد اس نے ان کو پیدا کیا۔ ہر ایک انسان اپنی ذات پر ذرا دھیان دے لے تو ساری بات صاف ہوجاتی ہے اور شرک بیخ وبن سے اکھڑ جاتا ہے بشرطیکہ کوئی آدمی غور وفکر کرنے والا بھی تو ہو ۔ ایک جگہ ارشاد خداوندی اس طرح ہوا کہ : ” کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے ؟ اور دونوں نمایاں راستے اسے نہیں دکھادیئے “ (البلد 90 : 8 تا 10) مطلب یہ ہے کہ کیا ہم نے اسے علم و عقل کے ذرائع نہیں دیئے ؟ دہ آنکھوں سے مرادجانوروں کی سی آنکھیں مراد نہیں بلکہ وہ انسانی آنکھیں مراد ہیں جنہیں کھول کر آدمی دیکھے تو اسے ہر طرف وہ نشانات نظر آئیں جو حقیقت کا پتہ دیتے ہیں اور صحیح و غلط کا فرق سمجھاتے ہیں۔ زبان اور ہونٹوں سے مراد محض بولنے کے آلات نہیں ہیں بلکہ نفس ناطقہ سے جو ان آلات کی پشت پر سوچنے کا کام کرتا ہے اور پھر ان سے اظہار مافی الضمیر کا کام لیتا ہے اور اسی طرح یہ بھی کہ ہم نے محض عقل و فکری طاقتیں عطا کر کے اسے چھوڑ نہیں دیا کہ اپنا راستہ خود تلاش کرے بلکہ اس کی راہنمائی بھی کی اور اس کے سامنے بھلائی اور برائی ، نیکی اور بدی کے دونوں راستے نمایاں کر کے رکھ دیئے تاکہ وہ خوب سمجھ سوچ کر ان میں سے جس کو چاہے اپنی ذمہ داری پر اختیار کرلے۔ اس لئے کہ اس کی ہر بات ہمارے علم میں موجود ہے اور کوئی چیز بھی ہمارے علم سے باہر نہیں۔
Top