Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے طِيْنٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَضٰٓى : مقرر کیا اَجَلًا : ایک وقت وَاَجَلٌ : اور ایک وقت مُّسَمًّى : مقرر عِنْدَهٗ : اس کے ہاں ثُمَّ : پھر اَنْتُمْ : تم تَمْتَرُوْنَ : شک کرتے ہو
وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر تمہارے لیے ایک میعاد ٹھہرا دی اور ایک دوسری میعاد بھی اس کے علم میں مقرر ہے پھر بھی تم ہو کہ شک کرتے ہو
انسانوں کی ابتدائی خلقت کی طرف اشارہ کر کے اس کو توحید کی دلیل ٹھہرادیا : 3: مقصد کلام یہ ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے جب اس کی ابتداء مٹی سے ہے اور یہ سب کو تسلیم بھی ہے تو پھر اس سے یہ سمجھنے میں کیوں کوتاہی ہو کہ تمام ارضی مخلوقات کی زندگی کا آغاز مٹی ہی سے ہوا ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم نے بیسیوں بار دہرایا ہے اور ہر بار اس کو ایک مختلف صورت میں پیش کیا ہے تاکہ انسان کو اچھی طرح یہ بات ذہن نشین ہوجائے اور ان مختلف بیانوں سے دو حقیقتوں کی طرف اس کی توجہ دلائی ہے ایک انسان کی بےحقیقتی کی طرف کہ مٹی سے پیدا ہونے والی یہ مخلوق اپنی تخلیق کو بھول نہ جائے دوسرے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کئے جانے پر اس کا یقین مان لے کہ جب انسان کو پہلی دفعہ اس ذات کریمی نے مٹی سے پیدا کیا جب کہ اس کا کوئی نام ونشان نہیں تھا اب جب اس کا وجود موجود ہے تو اس کو فنا کرنے کے بعد وہ پہلی بار پیدا کرنے والا دوبارہ کیوں پید انہیں کرسکے گا۔ جب پہلی بار پیدا کرنے سے وہ عاجز نہیں آیا تو دوسری بار پیدا کرنے سے وہ کیوں عاجز ہوگا اور پہلی پیدائش کے لئے جو وقت مقرر کردیا تھا وہ تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے آگیا اور اس پہلی پیدائش کو تم نے مان لیا اور پھر چونکہ پہلی پیدائش کے وقت مقرر پر جو موت کا آنا کہا تھا وہ بھی آگاہ اس سے پہلی پیدائش اور پہلی میعاد مقرر کو ماننے والا دوسری پیدائش اور دوسرے مقرہ وقت کو کیوں تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی تسلیم سے اس کو کون سی چیز مانع ہے ؟ اس کی وضاحت گویا پوچھی جا رہی ہے کیوں ؟ اس لئے کہ یہ حیات دیا جانے والا بعض اوقات اس تعجب میں آتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح کیا گیا ہے کہ : وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا کُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ 1ؕ۬ ۔ ” اور اگر تو عجیب بات دیکھنی چاہتا ہے تو عجیب بات ان کا یہ قول ہے کہ جب ہم مٹی ہوگئے تو پھر کیا ہم پر ایک نئی پیدائش طاری ہوگی ؟ تو یقین کرو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار سے انکار کیا اور جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے اور یہی ہیں کہ دوزخی ہیں ہمہشی ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے۔ “ (الرعد 13 : 5) کسی صاحب کو یہ وہم نہ ہو کہ ہم نے یہ کہہ کر ” تمام ارضی مخلوقات کی زندگی کا آغاز مٹی سے ہوا ہے ۔ “ کوئی نیا نظریہ قائم کر رہے ہیں یا ہم جنوں کی تخلیق نار سے انکاری ہیں۔ نہیں ، اصل بات یہ ہے کہ تمام ارضی مخلوق مجموعہ سے بہت سے قویٰ کا اور پھر جس مجموعہ میں جو عنصر زیادہ ہے اس کی نسبت اس عنصر کی زیادتی کی وجہ سے اس کی طرف کردی گئی ہے جس طرح انسان مجموعہ عناصر ہے اور اسی مجموعہ میں مٹی کا عنصر زیادہ ہے اس لئے اس کی نسبت اس کی طرف کردی گئی ہے ۔ اس طرح جو مخلوق ” جن “ کے نام سے موسوم ہے اور وہ مکلف بھی ہے اس میں آگ کا عنصر زیادہ ہونے کے باعث اس کی نسبت آگ کی طرف کردی گئی ہے اور یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جو مجموعہ اضداد نہیں اس کے مکلف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مکلف ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مجموعہ اضداد بھی اور ناطق بھی ہو جیسے ” انسان “۔ تخلیق اول سے دوچار ہونے والا انسان تخلیق ثانی سے کیونکر منکر ہے ؟ : 4: اس دنیا میں کوئی بات بغیر دلیل کے نہیں رکھی گئی ۔ ایک چیز کا اس دنیا سے تعلق ہو اور پھر وہ اپنی دلیل نہ رکھے یہ ممکن نہیں تخلیق اول سے گزرنے والے انسان کو مخاطب کر کے پوچھا جا رہا ہے کہ اے انسان تو ہی بتا کہ تیری یہ تخلیق اول کیسے ہوئی ؟ اور تیرے لئے وعدہ مقرر یعنی وقت موت جو متعین ہے وہ آنا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ سب پیدا ہونے والوں کے لئے لازم و ضروری ہے تو جس نے پہلی بار پیدا کیا ہے وہ دوسری بار بھی پیدا کرنے پر قادر ہے اور اس دنیا کے لئے جو وعدہ مقرر ہے وہ بھی یقیناً پورا ہوگا یعنی قیامت کا آنا بھی یقینی ہے جس طرح عالم صغیر یعنی انسان کی موت وحیات ہے اسی طرح عالم کبیر یعنی عالم دنیا کی حیات وموت کا معاملہ ہے۔ اگر اس عالم کی حیات کو تسلیم کرتے ہو تو تم اس کی موت کو بھی تسلیم کرلو یہ بات تمہارے لئے مفید ہے ویسے اگر تم تسلیم نہیں کرو گے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیامت آنے سے رک جائے گی ۔ اس کے لئے جو وقت اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے اس وقت مقرر پر اس کا آنا یقینی ہے اور کج بحثوں کا فیصلہ خود بخود ہوجائے گا اس میں الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس دوسری آیت میں لفظ ” ثم “ کا بعینہٖ وہی مفہوم ہے جو پہلی آیت میں تھا یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ان گنت دلائل دیکھنے کے بعد تمہیں قیامت کا یقین نہیں ۔ انسان اپنی غذا ہی کو دیکھے کہ کس طرح وہ زمین سے پیدا ہوتی ہے پھر کس طرح وہ معدہ میں پہنچ کر ہضم کی مختلف کیفیات سے گزر کر جزوبدن بنتی ہے ۔ اس کا ایک حصہ جب آنکھ کا نور ، کانوں کی سماعت ، زبان کی گویائی اور ایک حصہ ہڈیوں کی سختی ، اعصاب کی نرمی ، دماغ کا ادراک ، ہاتھوں کی گرفت بن جاتا ہے ۔ بس جو ہستی اس باریک نظام کو چلا رہی ہے اس کے لئے خاک کے منتشرذروں کو جمع کرنا کوئی مشکل نہیں لیکن ان ساری باتوں سے فائدہ وہی اٹھا سکتے ہیں جو عقل سے کام لے کر ان معاملات کو سوچتے ہیں اور انہی کی سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے اور وہی درحقیقت انسان کہلانے کے حقدار بھی ہیں۔
Top