Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 162
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک صَلَاتِيْ : میری نماز وَنُسُكِيْ : میری قربانی وَمَحْيَايَ : اور میرا جینا وَمَمَاتِيْ : اور میرا مرنا لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
تم کہہ دو میری نماز ، میرا حج ، میرا جینا ، میرا مرنا سب کچھ اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے
کہہ دو میری نماز ، میرا حج ، میرا مرنا اور جینا سب اللہ ہی کے لئے ہے : 256: یہ اعلان نبی اعظم وآخر ﷺ سے کرایا گیا جو مبنی برحق تھا اور ساری ملتوں کے لئے ایک ہی طرح کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ ملت ابراہیم (علیہ السلام) اور ملت اسلام بلکہ سارے انبیاء (علیہ السلام) کی ملتوں کی اصل روح ہے جس کو جس ملت کے جسم سے بھی الگ کردیا گیا ہو یا الگ کردیا جائے وہ ملت یقیناً مردہ تھی اور مردہ ہے اور جسم بغیر روح کے جو حیثیت رکھتا ہے وہ سب پر روشن ہے۔ صلوٰۃ اور قربانی اور زندگی اور موت دونوں میں غور کیجئے کہ کتنا حسین تقابل ہے۔ صلوٰۃ کے مقابلہ میں زندگی اور قربانی کے مقابلہ میں موت ہے یہ گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو اس ملت پر ہے وہ جیتا ہے تو اللہ کے لئے اور مرتا ہے تو اللہ کے لئے۔ اس کو زندگی میں کوئی تقسیم نہیں ہے یہ راز ابتداء وانتہا بالکل ہم رنگ اور ہم آہنگ ہے۔ اللہ کا کوئی ساجھی نہیں اس وجہ سے بندے کی زندگی میں بھی کوئی ساجھی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی بغیر کسی تقسیم وتجزیہ کے صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ کے لئے ہے۔ یہی میری فطرت ہے اور اسی کی مجھے ہدایت دی گئی ہے۔ یہ ایک قلادہ ہے جو میں نے اپنی گردن میں پہن لیا ہے اور میں ہوں کہ اس راہ پر چل پڑا ہوں اب جس میں ہمت ہے وہ اس راہ میں میرا ساتھ دے اور یہ بھی کہ جو میرا ساتھ دے گا وہی میرا ہے اور جو میرا ساتھ نہیں دے گا وہ یقیناً میرا نہیں اور میں اپنا سفر دوسروں کے لئے ملتوی کرنے والا بھی نہیں اور میری ہی وہ ملت ہے جو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کہلانے کی حق دار ہے اور میری ہی وہ راہ ہے جو ” راہ مستقیم “ کہلاتی ہے ، باقی ساری راہیں ٹیڑھی ہیں اور میں اس دین کا پیرو اور پرچار کرنے والا ہوں جو دین صرف اور صرف ایک طرف کا دین ہے ہر جائی دین نہیں۔ غور کرو کہ ہر نبی کی تحریک شرک کے خلاف تھی کوئی نبی ورسول بھی شرک کی دعوت لے کر نہیں آیا بلکہ ہر نبی و رسول نے شرک کا ایک جیسا رد کیا اور پورے زور وشور سے کیا۔ ہر نبی نے توحید کا سبق پڑھایا اور زور وشور سے پڑھایا لیکن حَنِیْفًا 1ۚ کا لفظ صرف اور صرف ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے حق میں بولا گیا۔ قرآن کریم میں یہ لفظ دس بار استعمال ہوا اور ہر بار ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے بولا گیا اور اسی طرح ” حُنَفَآءَ “ کا لفظ دو بار استعمال ہوا اور دونوں بار شرک کے خلاف آیا جیسا کہ ارشاد الٰہی ہوا کہ : ” حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖ 1ؕ“ یکسو ہو کر اللہ کے بندے بنو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ ” حُنَفَآءَ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِؕ005 “ یکسو ہو کر اللہ کی بندگی کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں یہی نہایت صحیح اور درست دین ہے اور اس دین کی تعلیم وتبلیغ کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث کیا گیا اور یہی تعلیم وتبلیغ وہ زندگی بھر دیتے رہے اور اسی کی طرف قیامت تک دعوت دی جاتی رہے گی اس کے علاوہ سب کچھ باطل وفاسد ہے اور یہی وہ دعوت اسلام ہے جس کی دعوت دنیا کے سارے نبی ورسول دیتے رہے۔ اس لئے یہی وہ دعوت ہے جس کو اسلام کی دعوت کہا جاسکتا ہے۔
Top