Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 153
وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ١ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاَنَّ : اور یہ کہ ھٰذَا : یہ صِرَاطِيْ : یہ راستہ مُسْتَقِيْمًا : سیدھا فَاتَّبِعُوْهُ : پس اس پر چلو وَلَا تَتَّبِعُوا : اور نہ چلو السُّبُلَ : راستے فَتَفَرَّقَ : پس جدا کردیں بِكُمْ : تمہیں عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ بِهٖ : حکم دیا اس کا لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری اختیار کرو
اور اس نے تمہیں بتلایا ہے کہ یہی راہ میری سیدھی راہ ہے سو اسی پر چلو اور راہوں پر نہ چلو کہ اللہ کی راہ سے بھٹکا کر تمہیں تتر بتر کردیں ، یہ بات ہے جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
ابراہیم (علیہ السلام) کی اصل راہ وہی ہے جو ملت اسلام کی راہ ہے : 244: یہ اسلامی معاشرے کی دسویں پابندی ہے جو اس جگہ بیان کی گئی ہے اور یہ اس جگہ بیان کی گئی پابندیوں میں سے آخری بھی ہے کہ تم لوگ ” میری بتائی ہوئی سیدھی راہ پر چلو اور میری بتائی ہوئی راہ کے علاوہ کسی دوسری راہ پر نہ چلو کہ اللہ کی راہ سے بھٹکا کر تمہیں متفرق کردیں گے۔ “ اور یہ بھی کہ یہی وہ راہ ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کی بتائی ہوئی راہ ہے اور اس کی اصل یہ ہے کہ خدا کے عالم گیر دین کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے صراط مستقیم سے بہتر تعبیر نہیں ہو سکتی تھی تم کسی خاص مقام تک پہنچنے کے لئے کتنی ہی راہیں نکال لو لیکن سدیھی راہ ہمیشہ ایک ہی ہوگی اور اس پر چل کر ہر مسافر منزل مقصود تک بحفاظت وامن پہنچ سکے گا۔ علاوہ ازیں سیدھی راہ ہی ہمیشہ شاہراہ عام کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ تمام مسافر خواہ وہ کسی گوشے کے راہنے والے ہوں لیکن سب مل جل کر وہی راہ اختیار کریں گے اور کبھی یہ نہ کریں گے کہ الگ الگ ٹولیاں بنا کر ٹیڑھی ترچھی راہوں میں متفرق ہوجائیں۔ قرآن کریم کہتا ہے ٹھیک اسی طرح دین کی سیدھی راہ بھی ایک ہی ہے بہت سی نہیں ہو سکتیں اور وہ روز اول سے موجود ہے ہر عہد ، ہر قوم ، ہر ملک اس پر چل کر منزل مقصود تک پہنچا ہے بعد میں پیروان مذاہب نے ایسا کیا کہ بہت سی ٹیڑھی ترچھی راہیں نکال لیں اور ایک راہ پر متفق رہنے کی جگہ الگ الگ ٹولیاں بنا کر متفرق ہوگئے وہ کہتا ہے اب اگر تم چاہتے ہو کہ منزل مقصود کا سراغ پائو تو چاہئے کہ اس سیدھی راہ پر اکٹھے ہوجائو : فھو طریقا مستقیما سھلا مسلوکا واسعا موصلا الی المقصود ، اور یہی حقیقت اس زیر نظر میں بیان ہوئی ہے اور اس کی مزید وضاحت کے لئے جب ” صراط مستقیم “ کی اس تفسیر پر نظر ڈالی جائے جو خود پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمائی ہے تو بات مزید صاف ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : عن ابن مسعود قال خط لنا رسول اللہ ﷺ خطا بیدہ ثم قال ھذا سبیل اللہ مستقیما ثم خط خطوطا عن یمین ذلک الخط وعن شمالہ ثم قال وھذا السبیل للیس منھا سبیلا الا علیہ شیطان ید عوا الیہ ثم قرا ھذہ الایۃ ۔ (اخرجہ النسائی واحمد والبزار وابن المنذر وابو شیخ والحاکم صححہ) عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلی سے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا یوں سمجھو کہ یہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا راستہ ہے بالکل سیدھا اس کے بعد اس لکیر کے دونوں طرف بہت سی ترچھی لکیریں کھینچ دیں اور فرمایا یہ طرح طرح کے راستے جو بنا لئے گئے ہیں اور ان میں سے کوئی راستہ نہیں جس کی طرف بلانے کے لئے ایک شیطان موجود نہ ہو پھر آیت : وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا آخر تک تلاوت فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام ادھر ادھر کے ٹیڑھے ترچھے راستے ” سبل متفرقہ “ ہیں جو جمیعت بشری کو متحد کرنے کی جگہ متفرق کردیتے ہیں اور درمیان کی ایک ہی سیدھی راہ ” صراط مستقیم “ ہے یہ متفرق کرنے کی جگہ تمام رہروان منزل کو ایک ہی شاہراہ پر جمع کردیتی ہے۔ یہ ” سبل متفرقہ “ کیا ہیں ؟ اس گمراہی کا نتیجہ ہیں جسے قرآن مجید نے دوسری جگہ ” نشیع “ اور ” تخرب “ کی گمراہی سے تعبیر کیا ہے اور تشریح اس کی اوپر گزر چکی۔ دین حقیقی کی راہ کا سیدھا ہونا اور ” سبل متفرقہ “ یعنی خود ساختہ گروہ بندیوں کا پر پیچ وخم ہونا ایک اییا حقیقت ہے جسے ہر انسان بغیر کسی عقلی کاوش کے سمجھ سکتا ہے۔ اللہ کا دین اگر انسان کی ہدایت کے لئے ہے تو ضروری ہے کہ خدا کے تمام قوانین کی طرح یہ بھی صاف اور واضح ہو اس میں کوئی راز نہ ہو ، کوئی پیچیدگی نہ ہو ، ناقابل حل معمہ نہ ہو۔ اعتقاد میں سہل ہو اور عمل میں ہلکا ہر عقل اسے بوجھ لے اور ہر طبیعت اس پر مطمئن ہوجائے اور غور کرو کہ یہ تعریف کس راہ پر صادق آتی ہے ؟ ان مختلف راہوں پر جو پیروان مذاہب نے الگ الگ گروہ بندیاں کر کے نکال دیں یا اس ایک ہی راہ پر جسے قرآن کریم اصل دین کی راہ بتاتا ہے ؟ جیسا کہ اوپر بیان ہوتا چلا آرہا ہے ملت ابراہیم اور ملت اسلام میں امرو نہی کی اساسات اللہ تعالیٰ نے ایک جیسی چیزوں کو بنایا ہے اور یہی دین سارے انبیاء کرام پیش کرنے کے لئے آئے تھے اختلاف وافتراق سارے کا سارا لوگوں کی اہوا و خواہشات کا نتیجہ ہے اور بدقسمتی سے آج مسلمانوں نے بھی وہی گروہ بندی اختیار کرلی جو پچھلی امتیں کرتی آرہی تھیں۔ قرآن کریم نازل کرنے اور نبی اعظم وآخر ﷺ کے بھیجنے کا منشاء الٰہی تو یہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے خیالات اور ارادوں کو چھوڑ کر قرآن وسنت کے تابع ہوں اور اپنی زندگیوں کو ان کے سانچہ میں ڈھال لے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ لوگوں نے قرآن وسنت کو اپنے خیالات اور تجویزات کے سانچہ میں ڈھالنا شروع کردیا ہے جو آیت اور حدیث اپنے منشاء کے خلاف نظر آئی اس کی تاویلیں کر کے اپنی خواہش کے مطابق بنا لیا بس یہیں سے وہ گمراہ کن راہیں پیدا ہوئیں اور ہو رہی ہیں جو دراصل بدعات اور شبہات کی راہیں ہیں انہیں سے بچنے کے لئے اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے۔ اوپر بیان کئے گئے دس اصولوں یا بیان کی گئی دس پابندیوں کو تین آیات میں تقسیم کیا گیا پہلی آیت میں پانچ حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا : ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ 00151 یعنی ” یہ ہیں وہ باتیں جن کی اللہ نے تمہیں وصیت کی ہے تاکہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔ “ پھر مزید چار حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَۙ00152 ” یہ باتیں ہیں جن کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ “ اور پھر آخری دسواں حکم ایک آیت میں بیان کیا پھر اس کے بعد فرمایا : ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 00153 ” یہ بات ہے جس کا تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیز گار ہوجائو۔ “ اب غور کرو کہ قرآن کریم کے اس حیما نہ اسلوب بیان میں کتنی حکمتیں پنہاں ہیں۔
Top