Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 153
وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ١ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاَنَّ : اور یہ کہ ھٰذَا : یہ صِرَاطِيْ : یہ راستہ مُسْتَقِيْمًا : سیدھا فَاتَّبِعُوْهُ : پس اس پر چلو وَلَا تَتَّبِعُوا : اور نہ چلو السُّبُلَ : راستے فَتَفَرَّقَ : پس جدا کردیں بِكُمْ : تمہیں عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ بِهٖ : حکم دیا اس کا لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری اختیار کرو
اور حکم کیا کہ یہ راہ ہے میری سیدھی سو اس پر چلو اور مت چلو اور رستوں پر کہ تم کو جدا کردیں گے اللہ کے راستے سے یہ حکم کردیا ہے تم کو تاکہ تم بچتے رہو۔
تیسری آیت میں دسواں حکم مذکور ہے (آیت) وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ، ”یعنی یہ دین محمدی ﷺ میرا سیدھا راستہ ہے، سو اس راہ پر چلو، اور دوسری راہوں پر مت چلو، کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی“۔
اس میں لفظ ھذا کا اشارہ دین اسلام یا قرآن کی طرف ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سورة انعام کی طرف اشارہ ہو، کیونکہ اس میں بھی پورے اصول اسلام، توحید، رسالت اور اصول احکام شرعیہ مذکور ہیں (اور مستقیم، دین کے اس راستہ کی صفت ہے جس کو نحوی ترکیب میں بصورت حال ذکر کرکے اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ دین اسلام کے لئے مستقیم ہونا لازمی وصف ہے اس کے بعد فرمایا فاتَّبِعُوْهُ یعنی جب یہ معلوم ہوگیا کہ دین اسلام میرا راستہ ہے اور وہی مستقیم اور سیدھا راستہ ہے تو اب منزل مقصود کا سیدھا راستہ ہاتھ آگیا، اس لئے صرف اسی راستہ پر چلو)۔
پھر فرمایا (آیت) وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ، سُبُل، سبیل کی جمع ہے، اس کے معنی بھی راستہ کے ہیں، مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کا اصلی راستہ تو ایک ہی ہے، لیکن دنیا میں لوگوں نے اپنے اپنے خیالات سے مختلف راستے بنا رکھے ہیں، تم ان راستوں میں سے کسی راستہ پر نہ چلو، کیونکہ یہ راستے حقیقت میں خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے نہیں ہیں، اس لئے جو ان راستوں پر چلے گا وہ اللہ کے راستہ سے دور جا پڑے گا۔
تفسیر مظہری میں فرمایا ہے کہ قرآن کریم نازل کرنے اور رسول کریم ﷺ کے بھیجنے کا منشاء تو یہ ہے کہ لوگ اپنے خیالات اور اپنے ارادوں اور تجویزوں کو قرآن و سنت کے تابع کریں، اور اپنی زندگیوں کو ان کے سانچہ میں ڈھالیں، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ لوگوں نے قرآن و سنت کو اپنے خیالات اور تجویزات کے سانچہ میں ڈھالنے کی ٹھان لی، جو آیت یا حدیث اپنے منشاء کے خلاف نظر آئی اس کو تاویلیں کرکے اپنی خواہش کے مطابق بنالی، یہیں سے دوسری گمراہ کن راہیں پیدا ہوتی ہیں، جو بدعات اور شبہات کی راہیں ہیں، انھی سے بچنے کے لئے اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے۔
مسند دارمی میں بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سیدھا خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا رستہ ہے، پھر اس کے دائیں بائیں اور خطوط کھینچے اور فرمایا کہ یہ سُبُل ہیں، (یعنی وہ راستے جن پر چلنے سے اس آیت میں منع فرمایا ہے) اور فرمایا کہ ان میں سے ہر راستہ پر ایک شیطان مسلط ہے، جو لوگوں کو سیدھے راستہ سے ہٹا کر اس طرف بلاتا ہے اور اس کے بعد آپ ﷺ نے استدلال کے طور پر اس آیت کو تلاوت فرمایا۔
آخر آیت میں پھر ارشاد فرمایا(آیت) ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم احتیاط رکھو۔
تینوں آیتوں کی تفسیر اور ان میں بیان کئے ہوئے دس اصول محرمات کا بیان پورا ہوگیا، آخر میں قرآن کریم کے اس اسلوب بیان پر بھی ایک نظر ڈالئے، کہ اس جگہ دس احکام بیان کئے تھے، ان کو آجکل کی کتب قانون کی طرح دس دفعات میں نہیں لکھ دیا، بلکہ پہلے پانچ حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا (آیت) ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ، اور پھر اور چار حکم بیان فرمانے کے بعد پھر اسی جملہ کو دوبارہ اس فرق کے ساتھ ذکر کیا کہ تعقلون کے بجائے تذکرون، فرمایا اور پھر آخری حکم ایک مستقل آیت میں بیان فرما کر پھر اسی جملے کا اعادہ اس فرق کے ساتھ کیا کہ تذکرون کے بجائے تتقون فرمایا۔
قرآن کریم کے اس حکیمانہ اسلوب بیان میں بہت سی حکمتیں ہیں۔
اول یہ کہ قرآن کریم عام دنیا کے قوانین کی طرح محض حاکمانہ قانون نہیں، بلکہ مربیانہ قانون ہے، اسی لئے ہر قانون کے ساتھ اس کو آسان کرنے کی تدبیر بھی بتلائی جاتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو قانون کی پابندی پر خلوت و جلوت میں مجبور کرنے والی ہے، اسی لئے تینوں آیتوں کے آخر میں ایسے کلمات لائے گئے جن سے انسان کا رخ مادی دنیا سے پھر کر اللہ تعالیٰ اور آخرت کی طرف ہوجائے۔
پہلی آیت میں جو پانچ احکام بیان کئے گئے ہیں شرک سے بچنا، والدین کی نافرمانی سے بچنا، قتل اولاد سے بچنا، بےحیائی کے کاموں سے بچنا، کسی کا ناحق خون کرنے سے بچنا، ان کے آخر میں تو لفظ تعقُلَون استعمال فرمایا، کیونکہ زمانہ جاہلیت والے ان چیزوں کو کوئی عیب ہی نہ جانتے تھے، اس لئے اشارہ کیا گیا کہ آبائی رسموں اور خیالوں کو چھوڑ کر عقل سے کام لو۔
دوسری آیت میں چار احکام بیان ہوئے، یعنی مال یتیم کو ناحق نہ کھانا، ناپ تول میں کمی نہ کرنا، بات کہنے میں حق اور صدق کا لحاظ رکھنا، اور اللہ کے عہد کو پورا کرنا۔
یہ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے ضروری ہونے کو تو یہ جاہل بھی جانتے تھے، اور ان میں کچھ لوگ عمل بھی کرتے تھے، مگر اکثر ان میں غفلت برتی جاتی تھی، اور غفلت کا علاج ہے تذکِرَہ یعنی خدا و آخرت کی یاد، اس لئے اس آیت کے آخر میں لفظ تَذَکَّرُون فرمایا۔
تیسری آیت میں صراط مستقیم کو اختیار کرنے اور اس کے خلاف دوسری راہوں سے بچنے کی ہدایت ہے، اور صرف خوف خدا ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو اپنے خیالات و خواہشات سے باز رکھنے کا صحیح ذریعہ ہو سکتی ہے، اس لئے اس کے آخر میں لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ارشاد فرمایا۔
اور تینوں جگہ لفظ وصیّت کا لایا گیا، جو تاکیدی حکم کو کہا جاتا ہے، اسی لئے بعض صحابہ کرام نے فرمایا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کا مہر کیا ہوا وصیت نامہ دیکھنا چاہئے وہ یہ تین آیتیں پڑھ لے۔
Top