Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 9
وَ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَةِ١ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَةِؕ
وَاَصْحٰبُ الْمَشْئَمَةِ : اور بائیں ہاتھ والے مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَةِ : کیا ہیں بائیں ہاتھ والے
اور بائیں ہاتھ والے کیا برا حال ہوگا بائیں ہاتھ والوں کا
بائیں ہاتھ والے کیا برا حال ہوگا بائیں ہاتھ والوں کا 9 ؎ (المشئمۃ) کی اصل ش ء م ہے اور ” الشوم “ ضد ہے الیمن کی اور السعد کی۔ اسم ہے۔ بائیں جانب والے (جلالین ) شومی بائیں جانب یا طرف شوم ۔ بدشگونی ‘ بدشگونی لینا ‘ دراصل عرب میں الٹے ہاتھ کو شو می یعنی منحسوس قرار دیتے تھے اور سیدھے ہاتھ کو سعد اور مبارک سمجھتے تھے اس لئے جیسا زبان اور بول چال میں ہوتا ہے کہ کسی اصل کی بناء پر ایک بات کہنا شروع کردی جاتی ہے اور اہل زبان میں وہ بولی جانے لگتی ہے اس کی وہ اصل بن جاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اہل عرب دائیں سمت والوں سے مراد اہل سعادت لینے لگے اور بائیں سمت والوں سے اہل شقاوت اور بدبخت لوگ۔ پھر دائیں ہاتھ سے جتنے اچھے کام ہیں وہ کئے جاتے ہیں۔ کوئی کام ہو تو وہ دائیں ہاتھ سے شروع ہوتا ہے۔ اسی سے محاورہ کے طور پر اہل جنت کو (اصحاب المیمنۃ) اور اہل دوزخ کو (اصہاب المشئمۃ) کہا جانے لگا اور زبان کے مطابق قرآن کریم میں بھی یہ دونوں الفاظ اسی غرض وغایت کے لئے استعمال کئے گئے۔ (اصحاب المیمنۃ) اور (اصحاب المئمۃ) کہنے کی توجیہ میں اگرچہ اختلاف ہے لکنگ تمام مختلف اقوال کا ماحصل ایک ہی ہے کہ (اصحاب المیمنۃ) اہل سعادت لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ اور (اصحاب المشئمۃ) اہل شقاوت ہوں گے۔ اس لئے امام راغب کی تشریح سب کو حاوی ہے۔ چناچہ امام صاحب رقم طراز ہیں کہ : ” یمن کا اصل معنی سیدھا ہاتھ ہے۔ اس کے بعد سیدھے رخ کو یمن کہنے لگے پھر ہر خیر اور سعادت کو یمین سے مراد لی جانے لگی پھر وسیلہ سعادت پر اس کا اطلاق ہونے لگا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ (الاحجر الاسود یمین اللہ) ” حجر اسود سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور حصول سعادت کیلئے ہے “ اور چونکہ معاہدہ عموماً سیدھے ہاتھ پر سیدھا ہاتھ مار کر کیا جاتا ہے اور قول وقرار کا یہی طریقہ بکثرت اقوام عالم میں جاری ہے اس لئے یمین کا معنی قسم ‘ عہد اور حلف ہوگیا اور مولی الیمین معاہد کو کہنے لگے۔ “ اور عام طور پر خریدو فروخت سیدھے ہاتھ سے ہوتی ہے اس لئے باندی ‘ غلام کے مالک ہونے کو ملک یمین کہنے لگے۔ یوں کہا جائے کہ جس طژرح رقبہ (گردن) اور ناصیہ (پیشانی) سے کنایہ پوری شخصیت مراد ہوتی ہے اور ملک رقبہ یا مالک ناصیہ ہونے سے مراد پوری ملکیت اور کامل اقتدار ہوتا ہے اسی طرح دائیں ہاتھ سے مراد بھی پوری شخصیت ہوتی ہے اور دائیں ہاتھ کے مالک ہونی سے مراد غلام یا باندی کا مالک ہونا ہے۔ یمین سے ہی یمن برکت وسعادت ماخوذ ہے۔ اور یمن ہی سے میمون بنا ہے جس کے معنی مبارک کے ہیں اور تیمن (تفعیل) برکت ڈھونڈنا اور برکت طلب کرنا مراد ہے۔ اب دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھو گے تو انشاء اللہ (اصحاب الیمن ) اور (اصحاب المشئمۃ) کے معنی و مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آجائیں گے۔
Top