Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 85
وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ
وَنَحْنُ : اور ہم اَقْرَبُ اِلَيْهِ : زیادہ قریب ہوتے ہیں اس کی طرف مِنْكُمْ : تمہاری نسبت وَلٰكِنْ لَّا : لیکن نہیں تُبْصِرُوْنَ : تم دیکھ پاتے
اور ہم تمہاری نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھ نہیں سکتے
اور ہم تمہاری نسبت مرنے والے کو زیادہ قریب ہیں لیکن تم دیکھ نہیں سکتے 58۔ ہر انسان کے قریب جتنے عزیز و اقارت اور یہاں تک کہ خود اس کی اپنی ذات ہوتی ہے اس سے زیادہ قریب اللہ ربِّ کریم ہی ہوتا ہے کیونکہ وہی ان سب کا خالق ومالک ہے کوئی شخص اپنی ذات کا بھی مالک اور خالق نہیں ہے اور علاوہ ازیں بھی اگر غور کیا جائے تو اس کی دلیلیں بہت ہیں کہ انسان کی اپنی ذات سے بھی اللہ تعالیٰ زیادہ قریب ہوتا مثلاً اہر ایک انسان کے متعلق اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ اس کو کیا کچھ کرنا ہے اور اس کے ساتھ کیا کیا کچھ پیش آنے والا ہے لیکن کسی انسان کو بھی علم نہیں کہ کل یعنی ابھی آنے والے وقت میں اس کو اپنی ذات کے سات کیا کچھ ہونے والا ہے ؟ جو کچھ انسان کرلیتا ہے وہ اگر آج نہیں تو کل بھول سکتا ہے کہ میں نے کیا کیا ہے اور کیا کہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ انسان کے ہر عمل ‘ فعل اور قول سے واقف ہے وہ کبھی کسی کے متعلق نہیں بھولتا اور نہ ہی بھول سکتا ہے ۔ انسان نہایت عزم و جزم کے ساتھ ایک پروگرام بناتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس کے پروگرام کو اس طرح فنح کردیتا ہے کہ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی اور اس کے پروگرام فنح ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان باتوں سے یہ خوب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ لاریب یہ بات صحیح ہے کہ انسان خود بھی اتنا اپنے قریب نہیں جتنا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے قریب ہے پھر دوسروں کی تو بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔ زیر نظر آیت میں مرنے والے کے قریب بیٹھنے والوں ہی کو مخاط کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اس مرنے والے کے اتنے قرب نہیں ہوتے جتنے کہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں لیکن اس دنیا میں چونکہ ہم کسی کو دکھائی نہیں دے سکتے اس لیے تم بھی ہم کو نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ کی ذات تو لطیف سے بھی لطیف ہے ‘ اس کے تو دکھائی دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ہم میں سے تو کوئی شخص اس مرنے والے کی جسم سے جب روح جدا ہوتی ہے تو بھی اس روح کو کوئی نہیں دیکھ سکتا اور محض اس کے نہ دیکھنے ہی کے باعث بعض لوگ اس بات ہی سے انکار کر جاتے ہیں کہ روح بذاتہ کوئی چیز نہیں ہے جو اس جسد عضری سے الگ ہو ۔ لیکن ان سے کوئی اگر یہ پوچھ لے کہ اگر تم دیکھ کر ہی ہر ایک چیز کو مانتے اور تسلیم کرتے ہو تو اس طرح تو ہر انسان کو اس دنیا میں بیشمار چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے لیکن جن سے اس کو واسطہ پڑتا ہے نہ تو وہ خود ان کو دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو وہ دکھا سکتا ہے ہاں ! وہ خود بھی جانتا ہے اور دوسروں کو بھی بتاتا ہے اور اس کے جاننے اور دوسروں کو بتانے ہی سے تعین کیا جاتا ہے کہ فی الواقع اس کو جس چیز سے سابقہ پڑا ہے وہ ایک چیز ہے اگرچہ نہ وہ خود دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کو دکھا سکتا ہے۔ محض اس کے کہنے اور بتانے ہی سے دوسرے یقین کرتے ہیں حالانکہ اس کے ایک طاقت اور قوت ہونے سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے اور لاریب اس قوت کا تعلق بھی اس کی روح سے ہے نہ کہ براہ راست جسم سے۔ ہاں روح کے وساطہ سے جسم کے ساتھ تعلق ہونا ایک دوسری بات ہے۔ غور کریں کہ آپ کہتے ہیں کہ میرے بازو میں درد ہے لیکن اگر آپ سے مطالبہ کیا جائے کہ اس کو دکھائو تو یقینا آپ اس کو دکھا نہیں سکتے۔ آپ کہتے ہیں کہ مجھے سردی لگ رہی ہے لیکن آپ سے مطالبہ کیا جائے کہ دکھائو کہ کہاں سردی لگ رہی ہے تو کبھی آپ دکھا نہیں سکتے۔ اسی طرح غور کرتے جائو تو بیسیوں چیزیں ایسی نکل آئیں گی کہ محض آپ کے کہنے سے دوسرے یقین کریں گے لیکن آپ سے اگر کہا جائے کہ بعض چیزیں بغیر دیکھے بھی مانی جاتی ہیں اور ماننی پڑتی ہیں بلکہ ماننی چاہئیں تو آپ اس سے خواہ مخواہ انکار کردیتے ہیں۔ پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ بات کہنے والا اللہ ربِّ کریم ہے نہ کہ کوئی دوسری ذات۔ اس کی مزید وضاحت ان شاء اللہ سورة قیامہ میں آئے گی اور سورة ق میں بھی پیچھے گزر چکی ہے وہاں سے ملاخطہ کرلیں۔
Top