Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 65
لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ
لَوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہیں لَجَعَلْنٰهُ : البتہ ہم کردیں اس کو حُطَامًا : ریزہ ریزہ فَظَلْتُمْ : تو رہ جاؤ تم تَفَكَّهُوْنَ : تم باتیں بناتے
اگر ہم چاہیں تو اس کو چورا چورا کردیں پھر تم باتیں بناتے رہ جاؤ (اور جو کچھ ہونا تھا وہ ہوجائے)
اگر ہم چاہیں تو اس کو چورا چورا کردیں پھر تم باتیں بناتے رہ جائو 65۔ { تفکھون } تم تعجب کرتے ہو ‘ تم تعجب کرو گے ‘ تم باتیں بناتے ہو ‘ تم باتیں بنائو گیتف کہ جس کے معنی تعجب کرنے پیشمان ہونے اور باتیں بنانے کے ہیں مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ بیضاوی لکھتے ہیں کہ تفکہ طرح طرح کے میووں سے نقل کرنے کے ہیں اور بطور استعارہ نقل مجلس کے لیے باتیں بنانے کو بھی تفکہ کہا جاتا ہے۔ (انورالحزیل قاضی بیضاوی ج 2 ص 301 طبع مصر) عطا ‘ کلبی ‘ مقاتل اور فراء نے یہاں تعجب کرنے کے معنی کیے ہیں۔ مجاہد ‘ حسن بصری اور قتادہ نے { تفکہوں } کا ترجمہ تندمون سے کیا ہے یعنی تم نادم ہونے لگو گے اور عکرمہ نے باہم ملامت کرنے کے کیے ہیں ابن کیسان نے غم گین اور حزین ہونے کے اور کسائی نے تفکہ کے معنی مافات پر تاسف کرنے کے معنی کیے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کھیتوں کو جو تم بوتے ہو تمہارا کام ان کو محض بونا ہے ان کو اگانا اور پروان چڑھانا تمہارا کام نہیں ہے اور یہ بات تم بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ ایک بار نہیں کئی ایک بار تم نے زندگی میں دیکھا ہوگا کہ تم نے فصل بوئی اور ہم نے اس کو اگایا اور بڑھایا یہاں تک کہ تمہارے کھیت لہلہانے لگے۔ لاریب تم نے اس کھیت پر محنت کی اور مال بھی خرچ کیا لیکن یہ محنت کیوں کی اور مال کیوں خرچ کیا ؟ اس توقع پر کہ اس سے مجھے بہت آمدنی ہوگی لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ یہ کہ جب فصل پکنے کے قریب ہوگئی تو ہم نے آسمانی بلیات کو نازل کر کے اُص کو چورا چورا کردیا اور جہاں سے تم بہت نفع حاصل کرنے کی امید لگائے بیٹھے تھے وہاں سے تم کو اتنا بھی وصول نہ ہا کہ تم اپنا لگایا ہوا خرچ بھی پورا کرسکو اس طرح گویا تمہارا اصل زر بھی گیا اور نفع بھی اور تم افسوس کرتے اور ہاتھ ملتے رہ گئے اور طرح طرح کی باتیں کرنے لگے لیکن افسوس تم پر کہ جو بات تم کو سمجھانا مقصود تھی وہ تم پھر بھی نہ سمجھ سکے { حطاماً } ریزہ ریزہ اور چورا چورا کردینا جو چیز ریزہ ریزہ ہوجائے اور روندی جائے اس کو حطاماً کہتے ہیں اور یہحطم سے مشق ہے جس کے معنی توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں۔ ظلتماصل میں ظللتم تھا بکسرلام اور دو لام کا ایک جگہ اکٹھا ہونا ثقیل تھا اور پھر کسرہ میں اور بھی ثقل تھا لہٰذا لام اول کو حذف کردیا گیا اور حرف ظا اپنے فتح پر باقی رہا اگرچہ یہ حذف شذو زقیاس میں داخل ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ آخر فعل ساکن ہو۔ مطلب یہ ہے کہ تم نے سارا دن جو محنت و مشقت اس کھیت پر کی تھی وہ اکارت چلی گئی۔
Top