Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 19
اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ١ؕ اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِی النَّارِۚ
اَفَمَنْ : کیا۔ تو۔ جو ۔ جس حَقَّ : ثابت ہوگیا عَلَيْهِ : اس پر كَلِمَةُ : حکم۔ وعید الْعَذَابِ ۭ : عذاب اَفَاَنْتَ : کیا پس۔ تم تُنْقِذُ : بچا لو گے مَنْ : جو فِي النَّارِ : آگ میں
کیا پس جس پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی تو کیا آپ ایسے شخص کو بچا سکتے ہیں جو آگ میں پڑچکا ہو ؟ (جبکہ اللہ کے سوا کوئی بچانے والا نہیں)
وہ لوگ جن پر عذاب کا کلمہ لازم آئے گا اور کوئی بچانے والا نہ ہو گا 19۔ رہے وہ لوگ جو سیدھی راہ چلنے کے بجائے الٹی راہ چلنے کے عادی ہوچکے ہیں اور یہ محض اس انحصار اور بل بوتے پر چلتے ہیں کہ ان کی اکثریت ہے اور یہ کہ ان کا باپ دادا ایسا کرتا آیا ہے اور ان کا یہی وہ جواب ہے جو سو جوابوں سے بھی وہ بھاری سمجھتے ہیں اور اگر باپ دادا ان کے تحریرات چھوڑ گئے ہوں پھر تو ان کی دلیل ہزاروں دلیلوں سے بھی بھاری ہوجاتی ہے حالانکہ باپ دادا زبانی کہہ جائیں یا تحریر چھوڑ جائیں یا موجودہ زمانہ میں وہ جو زندہ وجاوید کر رہے ہیں جب کوئی دلیل موجود نہ ہو تو سب کی حیثیت سراب سے زیادہ نہیں ہے یا راکھ کا ذھیر کہہ لیں اور جس چیز کو دلیل کہا جاتا ہے وہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی ذات اقدس ہو یا نبی ورسول ہو اور ازیں بعد جو کچھ ہے اس کو دیکھا جائے گا اور پرکھا جائے گا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ کا کلام یا نبی ورسول کے پیغام سے یہ بات خلاف ہو کیونکہ قرآن کریم میں شاید ہی کوئی ایسی بات ہوگی جو تصریف آیات میں ایک بار سے زیادہ بار دہرائی نہ گئی ہو۔ بہرحال وہ ٹیڑھی راہ چلنے کے عادی حضرات وہی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا کلمہ عذاب لازم آچکا ہے اور یہ بات روز روشن سے بھی زیادہ واضح ہے کہ جس شخص پر اللہ تعالیٰ کا کلمہ عذاب ثابت ہوجائے کوئی نہیں جو اس کو اس عذاب سے بچا سکے خواہ وہ کوئی نبی ورسول ہو یا کوئی پیرو بزرگ اور خواہ خود نبی اعظم وآخر محمد ﷺ کی ذات اقدس جو تمام نبیوں اور رسولوں کے بھی سردار ہیں۔ زیر نظر آیت میں آپ ہی کو مخاطب فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس قانون کو بیان کیا ہے اور یہی قانون بار بار قرآن کریم میں دہرایا گیا ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے بھائی یہ بات کس طرح ادا کرتے ہیں کہ اللہ کے پکڑے چھڑائے محمد محمد کے پکڑے چھڑا کوئی نہیں سکدا
Top