Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 18
الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ
الَّذِيْنَ : وہ جو يَسْتَمِعُوْنَ : سنتے ہیں الْقَوْلَ : بات فَيَتَّبِعُوْنَ : پھر پیروی کرتے ہیں اَحْسَنَهٗ ۭ : اس کی اچھی باتیں اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہیں هَدٰىهُمُ اللّٰهُ : انہیں ہدایت دی اللہ نے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ هُمْ : وہ اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
جو لوگ بات کو سنتے ہیں پھر اس کی اچھی اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں وہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور یہی صاحب عقل ہیں (جو عقل کے مطابق کام کرتے ہیں)
جو لوگ بات کو سنتے ہیں اور پھر اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں 18۔ دو چیزوں کے ٹکرانے سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کو آواز کہتے ہیں اور وہ اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی اور کان جو آواز سننے کا ایک آلہ ہیں ہر آواز کو سنتے ہیں خواہ وہ اچھی ہو یا بری۔ اس لیے زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنے والے لوگوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جب وہ کسی بات کو سنتے ہیں تو پھر اپنی عقل و فکر اور سمجھ وسوچ سے کام لے کر ہر اس بات کی پیروی کرتے ہیں جو اچھی ہو اور ہر اس بات کو سنی ان سنی کردیتے ہیں جو اچھی نہیں ہوتی پھر وہ لوگ جو یہ امتیاز حاصل کرلیتے ہیں یہ وہی ہیں جن کے دل اللہ نے ہدایت کے لیے کشادہ کر دئیے ہیں اور ان کے سینوں میں اچھی بات جم جاتی ہے اور یہی لوگ ہیں جن کو قرآن کریم اولو الالباب کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی بیان کیا جا چکا ہے ہمارے ہاں ان کا معیار سندیں اور ڈگریاں ہیں اور ان سے بھی بڑھ کر عہدے ، مرتبے ہیں اور کلیدی آسامیوں پر تعینات ہونا ہے اور قرآن کریم کی زبان میں عقل وفکر سے کام لینے والے لوگ ہیں خواہ ان کے پاس کوئی ڈگری اور سند موجود ہو یا نہ ہو۔ قرآن کریم کی زبان میں گدھ ان ہی لوگوں کو کہا گیا جن کے پاس کتابوں کے طومار تھے اور قوم سے وہ ڈگریاں اور سندیں رکھتے تھے اور لوگ ان کو اپنے مذہبی پیشوا جانتے اور مانتے تھے اور کتے سے مثال ان لوگوں کی دی گئی ہے جو ان ساری ڈگریوں کے ساتھ اور مذہبی پیشوائیت کے ساتھ سیاست میں بھی جمعے ہوئے تھے اور یہی سیاست ان کو دنیا کی طرف مائل کرگئی تھی۔ پہلی مثال سورة الجمعہ میں دی گئی ہے اور دوسری مثال سورة الاعراف کی آیت 176 میں۔
Top