Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 69
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَا١ؕ قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ١ۙ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا ادْعُ : دعا کریں لَنَا : ہمارے لیے رَبَّکَ : اپنارب يُبَيِّنْ ۔ لَنَا : وہ بتلا دے ۔ ہمیں مَا ۔ لَوْنُهَا : کیسا۔ اس کا رنگ قَالَ : اس نے کہا اِنَّهٗ : بیشک وہ يَقُوْلُ : فرماتا ہے اِنَّهَا : کہ وہ بَقَرَةٌ : ایک گائے صَفْرَآءُ : زرد رنگ فَاقِعٌ : گہرا لَوْنُهَا : اس کا رنگ تَسُرُّ : اچھی لگتی النَّاظِرِیْنَ : دیکھنے والے
لیکن پھر وہ کہنے لگے کہ اپنے رب سے پوچھو وہ یہ بھی بتلائے کہ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” اللہ کا حکم یہ ہے کہ اس کا رنگ پیلا ہو ، خوب گہرا پیلا ، ایسا پیلا کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی خوش ہوجائیں “
بنی اسرائیل نے مزید سوال اٹھا دیا کہ بتائو اس کا رنگ کیسا ہے ؟ 144: اگر وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کا حکم سنتے ہی کوئی ایک گائے ذبح کردیتے تو انہیں اتنی تکلیف برداشت کرنے کی نوبت ہی نہ آتی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی نیت صحیح نہ تھی وہ چاہتے تھے کہ یہ بات ہمارے سر سے ٹل جائے اس لئے کثرت سوال سے موسیٰ (علیہ السلام) کو خوب تنگ کیا لیکن نتیجہ میں وہ خود تنگی میں مبتلا ہوگئے۔ قاعدہ ہے کہ قانون اپنی ابتدائی شکل میں بہت سادہ اور سہل ہوتا ہے مگر جوں جوں آپ سوال کرتے جائیں گے قیود اور پابندیاں بڑھتی جائیں گی اور اس کا دائرہ تنگ ہوتا جائے گا۔ اہل مصر کا ایک فرقہ گائے کی تقدیس کے باوجود اسے قربان بھی کیا کرتا تھا ۔ مگر وہ لوگ جو قربانی کے قائل تھے قربانی کے جانور میں بڑی بال کی کھال اتارا کرتے تھے اس کا رنگ یکسر سفید اس کے پورے جسم پر ایک بال بھی سیاہ نہ ہو ۔ دم بالکل صحیح اور طبعی حالت میں ہو اور دم کے بال پورے سیاہ ہوں اس میں کوئی دھبہ نہ ہو غرض کئی طرح کی قیدیں اور شرطیں انہوں نے لگا رکھی تھیں۔ آخر یہ لوگ بھی تو مصر ہی میں رہتے تھے ممکن ہے کہ انہیں کہ صحبت کا یہ اثر ہو۔ بہر حال ان کو بتایا گیا کہ گائے کا رنگ زرد ہو اور خوب شوخ کھلتا ہوا۔ خوشنما ، خوش منظر ، خوش رنگ ہو۔ بدرنگ ، بدنما اور بدمنظر نہ ہو۔
Top