Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 68
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ١ؕ قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِكْرٌ١ؕ عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِكَ١ؕ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا ادْعُ ۔ لَنَا : دعاکریں۔ ہمارے لئے رَبَّکَ : اپنا رب يُبَيِّنْ ۔ لَنَا : بتلائے ۔ ہمیں مَا هِيَ : کیسی ہے وہ قَالَ : اس نے کہا اِنَّهٗ : بیشک وہ يَقُوْلُ : فرماتا ہے اِنَّهَابَقَرَةٌ : وہ گائے لَا فَارِضٌ : نہ بوڑھی وَلَا بِكْرٌ : اور نہ چھوٹی عمر عَوَانٌ : جوان بَيْنَ ۔ ذٰلِکَ : درمیان۔ اس فَافْعَلُوْا : پس کرو مَا : جو تُؤْمَرُوْنَ : تمہیں حکم دیاجاتا ہے
وہ بولے کہ تم اپنے رب سے درخواست کرو کہ واضح کرے ، وہ گائے کس طرح کی ہو ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ کا حکم یہ ہے ” وہ ایسی گائے ہو جو نہ تو بوڑھی ہو نہ بچھیا بلکہ درمیانی عمر کی ہو “ اور اب چاہیے کہ تم تعمیل حکم کرو
بنی اسرائیل کی مزید موشگافیاں : 143: جب قانون یا حکم پر عمل کرنا منظور نہ ہو تو اس میں فلسفیانہ موشگافیوں سے کام لیا جاتا ہے ۔ بال کی کھال اتاری جاتی ہے۔ بات یہ بات نکالی جاتی ہے ۔ سوال پر سوال کیا جاتا ہے اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس سے نجات مل جائے۔ باتیں بہت پوچھیں جاتی ہیں ۔ فرضی صورتیں پیش کی جاتی ہیں اور ان سب کا محاصل ترک قانون یا حکم کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ چناچہ بنی اسرائیل نے بھی بعینہٖ یہی صورت اختیار کی اگر وہ ان باریک بینیوں میں نہ جاتے۔ بلکہ کوئی ایک گائے لے کر ذبح کردیتے تو معاملہ ختم ہوجاتا لیکن ایسا جب کرتے کہ وہ کرنے کا ارادہ رکھتے ان کا ارادہ تو بات کو ٹالنے کا تھا۔ انہوں نے حتیٰ المقدور کوشش کی۔ اب وہ پوچھ رہے ہیں اے موسیٰ ! اپنے رب سے پوچھ کر بتا وہ گائے کیسی ہو ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب ہے کہ وہ گائے نہ تو اتنی بوڑھی ہو کہ کام کے قابل نہ رہی ہو اور نا ہی اتنی کم عمر بچھیا کہ اس کا ذبح کرنا نہ کرنا برابر ہو بلکہ وہ جوان ہو اور تم کو چاہئے کہ بات کو ختم کر کے عمل کی طرف آئو تاکہ اپنے لئے ایک آسان حکم کو مشکل نہ بنا دو ۔
Top