Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 278
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَذَرُوْا : اور چھوڑ دو مَا : جو بَقِيَ : جو باقی رہ گیا ہے مِنَ : سے الرِّبٰٓوا : سود اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اے مسلمانو ! اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو جس قدر زائد مال نادار مقروضوں کے ذمہ لازم بنا رکھا ہے اسے چھوڑ دو
ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ حرمت ” الربوا “ کے بعد طے شدہ ” الربوا “ بھی چھوڑ دیا جائے : 488: الربوا کی حرمت نازل ہونے سے پہلے عام عرب میں ” الربوا “ کا رواج پھیلا ہوا تھا ، اس آیت سے پہلی آیتوں میں جب اس کی ممانعت آئی تو حسب عادت تمام مسلمانوں نے ” الربوا “ کے معاملات ترک کردیئے لیکن کچھ لوگوں کے مطالبات ” الربوا “ کی بقایا رقموں کے دوسرے لوگوں پر تھے۔ اس میں یہ واقعہ پیش آیا کہ بنی ثقیف اور بنی مخزوم کے آپس میں الربوا کے معاملات کا سلسلہ تھا اور بنو ثقیف کے لوگوں کا کچھ الربوا مطالبہ بنی مخزوم کی طرف تھا۔ بنو مخزوم مسلمان ہوگئے تو اسلام لانے کے بعد انہوں نے ” الربوا “ کی رقم ادا کرنا جائز نہ سمجھا۔ ادھر بنو ثقیف کے لوگوں نے مطالبہ شروع کیا کیونکہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر مسلمانوں سے مصالحت کرلی تھی۔ بنو مخزوم کے لوگوں نے کہا کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ہم ان پر اسلامی کمائی کو ” الربوا “ کی ادائیگی میں خرچ نہ کریں گے۔ یہ جھگڑا مکہ مکرمہ میں پیش آیا اور اس وقت مکہ فتح ہوچکا تھا اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مکہ کے امیر حضرت معاویہ اور ایک روایت کے مطابق عتاب بن اسید ؓ تھے انہوں نے اس جھگڑے کا قضیہ بنی کریم ﷺ کی خدمت میں بغرض دریافت حکم لکھ بھیجا اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ” الربوا “ کے تمام سابقہ معاملات ختم کردیئے جائیں۔ پچھلا ” الربوا “ بھی وصول نہ کیا جائے صرف رأس المال وصول کیا جائے۔ بشرطیکہ وہ لینے والے کے پاس موجود ہو۔ یہ اسلامی قانون رائج کیا گیا تو مسلمان تو اس کے پابند تھے جو غیر مسلم قبائل بطور صلح و معاہدہ اسلامی قانون کو قبول کرچکے تھے وہ بھی اس کے پابند ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجود جب حجۃ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہ ﷺ نے اس قانون کا اعلان کیا تو اس کا اظہار فرمایا کہ یہ قانون کسی خاص شخص یا قوم یا مسلمانوں کے مالی مفاد کے پیش نظر نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تعمیر اور اصلاح و فلاح کے لیے جاری کیا گیا ہے اس لیے ہم سب سے پہلے مسلمانوں کی بہت بڑی رقم ” الربوا “ جو غیر مسلمانوں کے ذمہ تھی اس کو چھوڑتے ہیں تو اب ان کو بھی اپنے بقایا ” الربوا “ کی رقم چھوڑنے میں کوئی عذر نہ ہونا چاہیے۔ چناچہ آپ ﷺ نے اسی خطبہ میں ارشاد فرمایا : (الا ان کل ربا کان فی الجاھلیۃ ) موضوع عنکم کلہ لکم رؤس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون واول ربا موضوع ربا العباس بن عبدالمطلب کلہ) (ابن ابی حاتم) یعنی زمانہ جاہلیت میں جو الربوا کے معاملات کیے گئے سب کا ” الربوا “ چھوڑ دیا گیا اب ہر شخص کو اصل رقم ملے گی وہ بھی اس صورت میں کہ وہ لینے والے کے ہاں موجود ہو لیکن ” الربوا “ کی زائد رقم نہ ملے گی ، نہ تم زیادتی کر کے کسی پر ظلم کرسکو گے اور نہ کوئی اصل اصل رأس المال میں کمی کر کے تم پر ظلم کرسکے گا اور سب سے پہلے جو ” الربوا “ چھوڑا تھا وہ عباس بن عبدالمطلب کا ” الربوا “ ہے جس کی بہت بھاری رقمیں غیر مسلموں کے ذمہ بطور ” الربوا “ کے عائد ہوتی تھیں۔ قرآن کریم کی زیر نظر آیت میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور بقایا ” الربوا “ چھوڑنے کا حکم مذکور ہے۔ اس آیت کو شروع اس طرح کیا گیا کہ مسلمانوں کو خطاب کر کے اول ” اتَّقُوا اللّٰهَ “ کا حکم سنایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو ، اس کے بعد اصل مسئلہ کا حکم سنایا گیا یہ قرآن کریم کا وہ خاص طرز ہے جس میں وہ دنیا بھر کے قانون کی کتابوں سے ممتاز ہے کہ جب کوئی ایسا قانون بنایا جاتا ہے جس پر عمل کرنے میں لوگوں کو کچھ دشواری معلوم ہو تو اس کے آگے پیچھے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش اعمال کے حساب اور آخرت کے عذاب وثواب کا ذکر کر کے مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں کو اس پر عمل کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے ، اس کے بعد حکم سنایا جاتا ہے یہاں بھی پچھلے عائد شدہ ” الربوا “ کی رقم کا چھوڑ دینا انسانی طبیعت پر بار ہو سکتا تھا ، اس لیے پہلے ” اتَّقُوا اللّٰهَ “ فرمایا اور اس کے بعد حکم دیا کہ ” جس قدر ” الربوا “ مقروضوں کے ذمہ لازم بنا رکھا ہے اسے چھوڑ دو “ اور آیت کے آخر میں فرمایا کہ : ” اگر تم ایمان والے ہو “ جس میں اشارہ کردیا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ حکم خداوندی کی اطاعت کی جائے اس کی خلاف ورزی ایمان کے منافی ہے۔ یہ حکم چونکہ طبائع پر بھاری تھا اس لیے حکم سے پہلے ” اتَّقُوا اللّٰهَ “ اور حکم کے بعد ” اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 00278 “ کے ارشادات ملا دیئے گئے۔
Top