Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 182
فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
فَمَنْ : پس جو خَافَ : خوف کرے مِنْ : سے مُّوْصٍ : وصیت کرنے والا جَنَفًا : طرفداری اَوْ اِثْمًا : یا گناہ فَاَصْلَحَ : پھر صلح کرادے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان فَلَآ اِثْمَ : پس نہیں گناہ عَلَيْهِ : اس پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور اگر کسی شخص کو وصیت کرنیوالے سے بےجا رعایت کرنے یا کسی معصیت کا اندیشہ ہو اور وہ ان میں مصالحت کرا دے تو ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں ، بلاشبہ اللہ بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے
وصیت کرنے والا اگر وصیت خلاف اصول کر دے تو اصلاح جائز ہے : 311: ” خاف “ خوف عربی زبان میں ہمیشہ اندیشہ اور ڈر ہی کی معنی میں نہیں آتا بلکہ کبھی علم کے معنی میں بھی آتا ہے اور یہاں بھی یہی معنی مراد ہیں یعنی وصیت کا گواہ اس بات کا علم رکھتا ہو اور اس کو معلوم ہوجائے کہ وصیت کرنے والا گناہ کی وصیت کر رہا ہے اور وہ اس وقت اس کی اصلاح کرا لے تو یہ بھی صحیح ہے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور وصیت اگر بےضابطہ ہے یا خلاف قاعدہ شرعی ہے اور کوئی شخص وارثوں کے درمیان وقوع نزاع یا احتمال نزاع ہی دیکھ کر مضمون وصیت میں ایسی ترمیم کر دے جس سے حق تلفیوں کی اصلاح ہوجائے اور وارثوں میں بھی باہم مصالحت ہوجائے تو بھی گناہ کی بات نہیں بلکہ اصلاح کا معاملہ ہے۔
Top