Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 165
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ١ؕ وَ لَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ١ۙ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّتَّخِذُ : بناتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ اَنْدَادًا : شریک يُّحِبُّوْنَهُمْ : محبت کرتے ہیں كَحُبِّ : جیسے محبت اللّٰهِ : اللہ وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَشَدُّ : سب سے زیادہ حُبًّا : محبت لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے وَلَوْ : اور اگر يَرَى : دیکھ لیں الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْٓا : ظلم کیا اِذْ : جب يَرَوْنَ : دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب اَنَّ : کہ الْقُوَّةَ : قوت لِلّٰهِ : اللہ کے لیے جَمِيْعًا : تمام وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعَذَابِ : عذاب
اور انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کو اس کا ہم پلہ بنا لیتے ہیں وہ انہیں اس طرح چاہنے لگتے ہیں جیسی چاہت اللہ ہی کیلئے خاص ہے حالانکہ جو لوگ اللہ پر ایمان لاتے ہیں ان کے دلوں میں تو سب سے زیادہ محبت اللہ ہی کی ہوتی ہے یہ بات ان ظالموں کو اس وقت سوجھے گی جب وہ عذاب کی لپیٹ میں ہوں گے ، اس دن یہ دیکھیں گے کہ ہر طرح کی قوت تو بس اللہ ہی کیلئے ہے اور اس کا عذاب بڑا ہی سخت ہے
کون ہیں وہ جو اللہ کا شریک اور ہم پلہ بناتے ہیں ؟ 289: انسان کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ ان خزائن قدرت میں غور کرتا۔ ان سے کام لیتا اور اپنی ضروریات پوری کرتا اگر بالفرض رزق کمانے میں کوئی دقت محسوس ہوتی تو اسے برداشت کرتا مگر بعض بدبختوں کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اللہ سے یہ علیحدہ ہو کر غیروں سے اپنا رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ دوسروں کو اپنا رازق اور مربی خیال کرنے لگ جاتے ہیں ان کی غلامی و محکومی کو اپنے لئے باعث عزت سمجھتے ہیں ۔ ان کے آگے خاک مذلت چاٹتے ہیں اور اس طرح اپنی تمام عمر صرف کردیتے ہیں ۔ مگر ایک مسلمان کی شان اس سے کہیں زیادہ رفیع و بلند ہے۔ اس کی گردن اللہ کے سوا اور کسی کے آگے نہیں جھک سکتی بلکہ اسے جس قدر تکلیف ہوگی اس کے عشق خداوندی میں اور زیادہ اضافہ ہوگا۔ ارباب ایمان اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ انجام کار یہی صحیح تعلیم کام آئے گی اور دنیا اور آخرت میں صرف اس شخص کو آرام نصیب ہو سکتا ہے جو اس قانون کا پابند ہو ، یہی وجہ ہے کہ وہ تکلیفوں اور مصیبتوں کو برداشت کرلیتے ہیں مگر غیر اللہ کے آگے ان کی گردن نہیں جھکتی۔ البتہ جو لوگ مشرکانہ رسوم پابند ہیں راہ حق میں ذرا سی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتے مگر ایک وقت ایسا آئے گا جب وہ تمام قوتیں بیکار ثابت ہوں گی جن پر انہوں نے اعتماد کیا تھا اس وقت انہیں معلوم ہوگا کہ ان قوتوں پر اعتماد کرنا سخت غلط کاری تھی مگر اب یہ ندامت کس کام آئے گی ؟ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کا شریک اور ہم پلہ بناتے ہیں وہ خود انسانیت سے عاری ہیں کیونکہ انسان تب ہی انسان ہے جب عقل و فکر سے کام لے اور جب کوئی عقل و فکر سے کام لینا چھوڑ دے وہ انسان اگرچہ شکل و صورت سے انسان دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں وہ انسان نہیں رہتا ۔ قرآن کریم نے اس شرک کو تمام برائیوں کی جڑ اور تمام بیوقوفیوں کی ماں قرار دیا ہے اور فرمایا کہ ایک کا ہو کر رہنے اور کئی کا ہو کر رہنے میں جو فرق ہے کیا تم کو وہ بھی معلوم نہیں ؟ چنانچہ ارشاد فرمایا : وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ہٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ ہٰذَا لِشُرَكَآىِٕنَا 1ۚ فَمَا کَانَ لِشُرَكَآىِٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللّٰهِ 1ۚ وَ مَا کَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ اِلٰى شُرَكَآىِٕهِمْ 1ؕ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ 00136 (الانعام 6 : 136) ” اور جو کچھ اللہ نے کھیتی اور مویشی میں سے پیدا کیا ہے اس میں سے ایک حصہ یہ لوگ اپنے زعم باطل کے مطابق اللہ کے لیے ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اللہ کیلئے ہے اور یہ ان کے لیے جنہیں ہم نے اللہ کا شریک ٹھہرا لیا ہے پس جو کچھ انکے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کیلئے ہے وہ تو اللہ کی طرف پہنچتا نہیں لیکن جو کچھ اللہ کے لیے ہے وہ ان کے شریکوں کی طرف پہنچ جاتا ہے کیا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ “ ایک جگہ فرمایا : ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ مَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ یُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّ جَهْرًا 1ؕ ہَلْ یَسْتَوٗنَ 1ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ 1ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 0075 وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبْكَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ ہُوَ کَلٌّ عَلٰى مَوْلٰىهُ 1ۙ اَیْنَمَا یُوَجِّهْهُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ 1ؕ ہَلْ یَسْتَوِیْ ہُوَ 1ۙ وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ 1ۙ وَ ہُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (رح) 0076 (النحل 16 : 75 تا 76) ” اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے ، ایک غلام ہے کسی دوسرے آدمی کی ملک وہ خود کسی بات کی قدرت نہیں رکھتا اور ایک دوسرا آدمی ہے ہم نے اپنے فضل سے اسے اچھی روزی دے رکھی ہے اور وہ ظاہر و پوشیدہ اسے خرچ کرتا ہے ، اب بتلاؤ کیا یہ دونوں آدمی برابر ہو سکتے ہیں ؟ ساری ستائش اللہ کے لیے ہے مگر اکثر آدمی ہیں جو نہیں جانتے۔ اور اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ، دو آدمی ہیں ایک گونگا ہے کسی بات کے کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ، اپنے آقا پر بوجھ ہے جہاں کہیں بھیجو کوئی خوبی کی بات اس سے بن نہ آئے ، دوسرا ایسا ہے کہ (گونگے ہونے کی جگہ) لوگوں کو عدل و انصاف کی باتوں کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھے راستے پر ہے کیا وہ اور یہ ، دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ 1ؕ ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا 1ؕ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ 1ۚ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ 0029 (الزمر 39 : 29) ” اللہ نے ایک مثال بیان کی ہے کہ ایک (غلام) مرد ہے جس میں کئی (لوگ) شریک ہیں (جو) مختلف المزاج ہیں اور ایک شخص (ایسا) ہے جو خاص ایک ہی شخص کا (غلام) ہے ، کیا ان دونوں کی حالت یکساں ہو سکتی ہے ؟ تمام اچھی تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (سمجھتے) ۔ “ ایک جگہ فرمایا : وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ 1ۚ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِهِمْ عَلٰى مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیْهِ سَوَآءٌ 1ؕ اَفَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ 0071 (النحل 16 : 71) ” اور دیکھو اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر بہ اعتبار روزی کے برتری دی ہے پھر ایسا نہیں ہوتا کہ جس کسی کو زیادہ روزی دی گئی ہے وہ اپنی روزی اپنے زیردستوں کو لوٹا دے حالانکہ سب اس میں برابر کے حقدار ہیں پھر کیا یہ لوگ اللہ کی نعمتوں سے صریح منکر ہو رہے ہیں ؟ “ ایک جگہ فرمایا : ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ 1ؕ ہَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِیْهِ سَوَآءٌ تَخَافُوْنَهُمْ کَخِیْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ 1ؕ کَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ 0028 (الروم 30 : 28) ” تمہارے لیے تمہارے (روز مرہ کے) حالات میں سے ایک مثال بیان کی جاتی ہے (تم بتاؤ ) کیا تمہارے غلاموں میں سے کوئی تمہارا اس مال و دولت میں شریک ہے جو ہم نے تم کو دیا ہے (حالانکہ) تم سب اس میں برابر کے شریک ہو ، کیا تم ان (لونڈی غلاموں) سے ڈرتے ہو جیسے تم اپنوں سے ڈرتے ہو ، اس طرح ہم نشانیاں کھول کر ان لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ “ اس جگہ گویا بتایا جا رہا ہے کہ مشرکین ایک طرف تو زمین و آسمان اور سب چیزوں کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور پھر اس کی مخلوق میں سے اس کے شریک بھی ٹھہراتے ہیں۔ ان کے سامنے نذر و نیاز پیش کرتے ہیں تو ان کے اس رویہ کی تمثیل بیان فرمائی ہے جس کا منشاء یہ ہے کہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں تمہارے غلام تو شریک نہیں قرار پا سکتے تو پھر اللہ کی پیدا کی ہوئی کائنات میں اللہ کی پیدا کردہ مخلوق کیسے شریک بن سکتی ہے ؟ جو محبت خالص اللہ کے لیے ہے وہ دوسروں کے لیے حرام ہے : 290: مشاہدہ ہے کہ آج بھی مسیحیوں کو محبت اور تعلق خاطر خدا سے کہیں زیادہ ” خدا کے بیٹے “ اور پھر ” روح القدس “ اور ” مقدس کنواری “ سے ہے اور ہندوئوں کی محبت اور تعلق خاطر اپنے ایشور اور پر ماتما سے کہیں زیادہ ” در گا مائی “ ” لکشمی مائی “ ” اگنی دیوتا “ وغیرہ دیویوں اور دیوتائوں کے ساتھ اور رشیوں ، منیوں ، سادھوئوں کے ساتھ ہے اور مسلمانوں کی باری آئی تو انہوں نے مرشدوں ، پیروں اور ولیوں کو وہ مقام دے دیا جو اللہ کے لئے خاص تھا ” كَحُبِّ اللّٰهِ 1ؕ“ کے لفظ نے بات بالکل صاف کردی کہ غیر اللہ سے نفسی محبت ممنوع نہیں ہے بلکہ ماں ، باپ ، بھائی ، بہن ، بیٹے ، بیٹی ، عزیزوں ، دوستوں اور رفیقوں سے تو محبت درجہ طبعی میں رکھ ہی دی گئی ہے ائمہ شریعت و طریقت سے بھی محبت رکھنا مستحب ہے البتہ جو محبت حرام ہے وہ محبوب کو درجہ ربوبیت پر جاپہنچانے والی محبت ہے۔ ” یا علی “ ” یا حسین “ ” یا خواجہ “ ” یا غوث اعظم “ ” یا وارث “ کے نعرے لگانے والے ذرا اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھیں کہ محبت کا کتنا حصہ اللہ کے لئے باقی رہ گیا اور کتنا دوسروں کی نظر ہوچکا ؟ اسی بات کو قرآن کریم نے دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا : وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ 1ۚ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ 0045 ” اور جب اللہ وحدہ (لا شریک لہ) کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے قلوب گرانی محسوس کرتے ہیں اور جب ایک (اللہ) کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس وقت یہ خوش ہوتے ہیں۔ “ (الزمر 30 : 45) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ذٰلِكُمْ بِاَنَّهٗۤ اِذَا دُعِیَ اللّٰهُ وَحْدَهٗ کَفَرْتُمْ 1ۚ وَ اِنْ یُّشْرَكْ بِهٖ تُؤْمِنُوْا 1ؕ فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْعَلِیِّ الْكَبِیْرِ 0012 ” تمہارا یہ حال اس واسطے ہے کہ جب اللہ کو ایک کہا جاتا تھا تو تم نہیں مانتے تھے اور جب اس کے ساتھ شریک ٹھہرائے جاتے تو تم (فوراً ) قبول کرلیتے تھے ، اب تو فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جو سب سے بلند وبالا ہے ۔ “ (المؤمن 40 : 12) ایک جگہ فرمایا : پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگتے ہیں نفرت میں بھرے ہوئے۔ “ (بنی اسرائیل 17 : 46) فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ زبان سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور محبت کا اعتراف کرتے ہیں مگر اکیلے اللہ کی حمد وثناء پر خوش نہیں ہوتے جب تک کہ دوسرے پیروں ، فقیروں اور داتائوں کی کرامات کا ذکر نہ کیا جائے۔ آج کل بھی خالص توحید کا وعظ کہنے والے کو منکر اولیاء سمجھا جاتا ہے اور واعظ بھی سامعین کو خوش کرنے کے لئے ادھر ادھر کی گپیں ہانکنا ضروری خیال کرتے ہیں ۔ قرآن کریم کا درس دیں گے تو بھی ذائقہ تبدیل کرنے کے لئے اچار چٹنی ساتھ رکھنا ضروری خیال کریں گے۔ ایمان والوں پر اللہ کی محبت سب محبتوں سے غالب ہوتی ہے : 291: فرمایا جا رہا ہے کہ ایمانداروں کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں یعنی ان کے دل میں جو اللہ کی محبت ہوتی ہے وہ سب محبتوں پر غالب رہتی ہے کیونکہ ان کے دل عظمت الٰہی اور توحید ربانی سے معمور ہوتے ہیں وہ اللہ کے سوا دوسرے سے ایسی محبت نہیں کرتے جو خالص اللہ ہی کے لئے ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کسی دوسرے سے کبھی التجا کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کی طرف جھکتے ہیں اور نہ ہی اس پاک ذات کے ساتھ کسی کو شریک کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مؤمن کی محبت عقلی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی تمام دوسری محبتوں پر غالب رہتی ہے۔ آیت نے ضمناً اس مسئلہ کو بھی واضح کردیا کہ مؤمن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ اصلاً انس و محبت ہی کا ہوتا ہے۔ شرک سے بڑا کوئی ظلم اور مشرک سے بڑا کوئی ظالم نہیں : 292: قرآن کریم اللہ کا وہ پیغام ہے مشرکین کو جو اپنی جانوں پر بوجہ اپنے شرک کے ظلم کرنے والے ہیں اللہ کے عذاب کی خبر پہنچاتا ہے کہ اگر یہ لوگ عذاب کو دیکھ لیتے تو یقین ہوجاتا کہ قدرتوں والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے تمام چیزیں اسی کے ماتحت اور زیر فرما ہیں اور اس کے عذاب بھی بڑے بھاری ہیں جیسے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ : ” اس دن نہ تو اس کے عذاب جیسا کوئی عذاب کرسکتا ہے اور نہ اس کی پکڑ جیسی کسی کی پکڑ ہو سکتی ہے۔ “ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اگر انہیں اس منظر کا علم ہوتا تو یہ اپنی گمراہی اور شرک و کفر پر ہرگز نہ اڑتے ۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَ لَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَ لَا ہُمْ یُنْصَرُوْنَ 0039 (الانبیاء 21 : 39) ” اگر یہ منکر اس گھڑی کا حال معلوم کرلیں جب آتش (عذاب بھڑکے گی اور اس) کے شعلے نہ تو اپنے آگے سے ہٹا سکیں گے نہ پیچھے سے اور نہ کہیں سے مدد پائیں گے۔ “
Top