Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 164
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ١۪ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور اخْتِلَافِ : بدلتے رہنا الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَالْفُلْكِ : اور کشتی الَّتِىْ : جو کہ تَجْرِيْ : بہتی ہے فِي : میں الْبَحْرِ : سمندر بِمَا : ساتھ جو يَنْفَعُ : نفع دیتی ہے النَّاسَ : لوگ وَمَآ : اور جو کہ اَنْزَلَ : اتارا اللّٰهُ : اللہ مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مِنْ : سے مَّآءٍ : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ مَوْتِهَا : اس کے مرنے کے بعد وَبَثَّ : اور پھیلائے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ : ہر قسم دَآبَّةٍ : جانور وَّتَصْرِيْفِ : اور بدلنا الرِّيٰحِ : ہوائیں وَالسَّحَابِ : اور بادل الْمُسَخَّرِ : تابع بَيْنَ : درمیان السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : ( جو) عقل والے
بلاشبہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں اور جہازوں میں جوا نسانوں کی کاربراریوں کیلئے سمندر میں چلتے رہتے ہیں اور برسات میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے کہ اس سے زمین مر [ نے کے بعد جی اٹھتی ہے اور اس بات میں کہ ہر قسم کے جانور زمین کے پھیلاؤ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہواؤں کے پھرنے میں اور بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان اپنی مقرر جگہ کے اندر بندھے ہوئے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں بڑی ہی نشانیاں ہیں
یگانگت الٰہی کی نشانیاں : 288: ارشاد الٰہی ہوتا ہے کہ غور کرو انسان کی صدہا ضرورتیں ہیں جو زمین و آسمان کی پیدائش اور اختلاف لیل ونہار سے پوری ہوتی ہیں۔ پانی کے شیریں چشمے جنگلوں اور پہاڑوں میں تشنہ لبوں کی سیرابی کا باعث ہوتے ہیں۔ درختوں کی ٹہنیاں میووں کے بوجھ سے جھکی جاتی ہیں۔ ان چیزوں کی پیداوار میں انسانی کوشش کو دخل نہیں بلکہ قدرت خود بخود مہیا کر رہی ہے اور موسم کے تغیر و تبدل نے انکے پورا کرنے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے : هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّ مِنْهُ شَجَرٌ فِیْهِ تُسِیْمُوْنَ 0010 یُنْۢبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ النَّخِیْلَ وَ الْاَعْنَابَ وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ 1ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ 0011 وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ 1ۙ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ 1ؕ وَ النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ 1ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَۙ0012 (النحل 16 : 10 ، 12) ” وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا اس میں سے کچھ تو تمہارے پینے کے کام آتا ہے کچھ زمین کو سیراب کرتا ہے۔ اس سے درختوں کے جنگل پیدا ہوجاتے ہیں اور تم اپنے مویشی ان میں چراتے ہو۔ اسی پانی سے وہ تمہارے لئے ہر طرح کے غلوں کی کھتیاں بھی پیدا کرتا ہے نیز زیتون ، کھجور ، انگور اور ہر طرح کے پھل یقیناً اس بات میں ان لوگوں کے لئے ایک بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرنے والے ہیں اور دیکھ اس نے تمہارے لئے رات اور دن اور سورج اور چاند مسخر کردیئے کہ تمہاری کار براریوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور اسی طرح ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے لئے مسخر ہوگئے ہیں یقیناً اس بات میں ان لوگوں کے لئے بڑی ہی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ “ پھر جہازوں اور کشتیوں کے لئے بحری تجارت کے راستے کھلے ہیں جن کے ذریعے سے دریاؤں اور سمندروں میں تجارت کر کے اللہ کا فضل تلاش کرتے ہو۔ زمین جب امساک باراں کی بناء پر مردہ ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بارش نازل کرتا ہے اور مردہ زمین کو زندگی بخش دیتا ہے ۔ زمین کی زندگی سے مراد یہ ہے کہ لوگ اس میں کاشتکاری کرسکیں اور وہ زراعت کے قابل بن جائے گویا اس آیت میں بتایا کہ زراعت اور کھیتی باڑی بھی رزق کمانے کا ایک ذریعہ ہے۔ دیکھو جانور کثرت سے زمین میں پھیلائے گئے ہیں ان میں تمہارے یعنی انسانوں کے کتنے فائدے ہیں جن میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ جانور یعنی چار پائے تمہارے لئے بوجھ اٹھا کرلے جاتے ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو تم بڑی ہی مشقت میں مبتلا ہوجاتے۔ تمہارے لئے کتنے فائدے اور بھی ہیں اور ان میں سے ایسے جانور بھی ہیں جن کو تم کھاتے ہو اور ایسے بھی ہیں جن جانوروں کی تجارت سے فائدہ اٹھاتے ہو۔ ہواؤں کا تغیر و تبدل خود ایک حقیقت کی طرف راہنمائی کرتا ہے مگر ارباب عقل و خردہی اس کی جانب توجہ کرسکتے ہیں۔ آج ہم اپنے گردوپیش نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ دنیا ہوا سے کیا کیا کام لے رہی ہے اور علوم و معارف کے ذریعہ اس کو کس طرح اپنے تابع فرمان بنا لیا ہے۔ آسمان و زمین کے درمیان جس قدر بادل نظر آتے ہیں وہ سب کے سب انسانوں کے مطیع و فرمانبردار ہیں کہ صاحبان دانش و بینش اٹھیں اور ان سے قوت برقی حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ دیکھ اس پانی سے غیروں نے تمہارے لئے برقی رو فراہم کردی یہ طاقت و قوت اس میں یعنی پانی میں رکھنے والا کون تھا ؟ اور جس دماغ سے کام لے کر یہ کارنامہ دکھایا گیا وہ کس نے ترتیب دیا ؟ اس کا بنانے والا اور کھوپڑی میں رکھنے والا کون ہے ؟ اس تانبے ، لوہے اور جست جیسی دھاتوں کا بنانے والا کون ہے ؟ اللہ نے انسانوں میں ضروریات پیدا کیں اس کے ساتھ ساتھ اسباب وسائل بھی بہم پہنچا دیئے پھر ان سے فائدہ حاصل کرنے ان کو اپنی ضروریات میں لانے کیلئے عقل نوازش کی دولت کمانے کے ان قدرتی ذریعوں کو چھوڑ کر دوسری طرف متوجہ ہونا عقل والوں کا کام نہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیوں کا ذکر بڑا تفصیل کے ساتھ جگہ جگہ کیا ہے چونکہ انہی آیات پر غور و فلر کرنے سے اللہ کی الوہیت و ربوبیت اور دوسری صفات کی نشاندہی ہوتی ہے اور ان ہی سے اللہ کی پہچان کی جاسکتی ہے اس اَن دیکھے اللہ کو ماننے کے لئے کائنات ہی میں غور و فکر لازم ہے اور قرآن کریم نے یہی راستہ انسانی تفہیم کے لئے اختیار فرمایا ہے اس لئے جی چاہتا ہے کہ کچھ جگہوں کی نشاندہی کردی جائے تاکہ قارئین کا ایمان تازہ ہو اور ارباب عقل و فکر ان میں تدبر کرسکیں۔ پھر مزید سہولت کے لئے صرف ترجمہ ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے متن قرآن کریم کے لئے مطلوبہ جگہوں کو نکال کر پڑھیں اور غور و فکر کریں۔ ” تمہارا پروردگار تو وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام یعنی ادوار میں جو یکے بعد دیگرے واقع ہوئے پیدا کیا اور پھر اپنی حکومت و جلال کے تخت پر متمکن ہوگیا۔ اس نے رات اور دن کی تبدیلی کا ایسا نظام ٹھہرا دیا ہے کہ رات کی اندھیری دن کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے گویا دن کے پیچھے لپکی چلی آرہی ہے اور دیکھو سورج ، چاند ، ستارے سب اس کے حکم کے آگے جھکے ہوئے ہیں ۔ یاد رکھو اس کے لئے پیدا کرنا ہے اور اسی کے لئے حکم دینا۔ سو کیا ہی بابرکت ذات ہے اللہ کی جو تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا ہے۔ لوگو ! اپنے پروردگار سے دعائیں مانگو آہ وزاری کرتے ہوئے بھی اور پوشیدگی میں بھی اور یاد رکھو کہ وہ انہیں پسند نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے ہیں اور دیکھو ملک کی درستگی کے بعد اس میں خرابی نہ پھیلاؤ ۔ اپنی خطاؤں سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت سے امیدیں رکھتے ہوئے اس کے حضور دعائیں کرو یقیناً اللہ کی رحمت ان سے نزدیک ہے جو نیک کردار ہیں ۔ پھر دیکھو یہ اس کی کارفرمائی ہے کہ باران رحمت سے پہلے ہوائیں بھیجتا ہے کہ مینہ برسنے کی خوشخبری پہنچا دیں پھر جب وہ بوجھل بادل لے اڑتی ہیں تو انہیں کسی مردہ زمین کی بستی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔ پھر ان سے پانی برساتا ہے اور زمین سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح ہم مردوں کو زندہ کردیتے ہیں تاکہ تم قدرت الٰہی کی کرشمہ سازیوں میں غور وفکر کرو اور دیکھو اچھی زمین اپنے پر وددگار کے حکم سے اچھی پیدا وار ہی نکالتی ہے لیکن جو زمین نکمّی ہے اس سے کچھ پیدا نہیں ہوتا ۔ مگر یہ کہ کوئی نکمّی چیز پیدا ہوجائے ۔ اس طرح ہم حکمت و عبرت کی نشانیاں ان لوگوں کے لئے دہراتے ہیں جو شکر کرنے والے ہیں یعنی اللہ کی نعمتوں کے قدر شناس ہیں۔ “ ( الاعراف 7 : 54 ، 58) ” توحید الوہیت “ یعنی اللہ کے سوا کوئی ہستی اس کی مستحق نہیں کہ معبود بنائی جائے ” توحیدربوہیت “ یعنی کائنات کی پیدا کرنے والی پرورش کرنے والی ہستی اللہ کی ہستی ہے ۔ قرآن کریم کا اسلوب بیان یہ ہے کہ وہ توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پر استدلال کرتا ہے یعنی جب خالق و رب اس کے سوا کوئی نہیں تو معبود بھی اس کے سوا اور کسی کو نہیں بنانا چاہئے۔ پھر ” توحید الوہیت “ کی تلقین اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ ” خلق “ اور ” امر “ دونوں اللہ کی ذات سے ہیں یعنی وہی کائنات ہستی کا پیدا کرنے والا ہے اور اس کے حکم اور قدرت سے اس کا انتظام بھی ہو رہا ہے یہ بات نہیں ہے کہ تدبیر وانتظام کی دوسری قوتیں بھی موجود ہیں جیسا کہ مشرکین کا خیال ہے۔ ” تخت پر متمکن ہوگیا “ یعنی اللہ کی بادشاہت کائنات ہستی میں نافذ ہوگئی کیونکہ وہی خالق ہے اور وہی مدبر ہے تمام عالم ہستی اسی کے تخت جلال کے آگے جھکی ہوئی ہے چناچہ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے : ” ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ 1ؕ “۔ فرمایا اے پیغمبر اسلام ! قرآن کریم کی دعوت کی راہ میں کتنی ہی مشکلات پیش آئیں لیکن اس کی کامیابی اٹل ہے اور اہل ایمان کو اس بارے میں دل تنگ نہیں ہونا چاہئے پھر فرمایا کہ یاد رکھو اللہ کی رحمت نیک کرداروں سے دور نہیں۔ دیکھو جب پانی برسنے کو ہوتا ہے تو پہلے بارانی ہوائیں چلنے لگتی ہیں پھر پانی برستا ہے اور مردہ زمین زندہ ہو کر سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے یہی حال ہدایت وحی کا ہے اور اس کے انقلاب کا کہ پہلے اس کی علامتیں نمودار ہوتی ہیں پھر اس کی برکتوں سے مردہ روحوں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہی وہ زندگی ہے جو انبیاء حکم الٰہی سے مردہ انسانوں میں پھونکنے کے لئے آتے ہیں چناچہ ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں اب باران رحمت کی برکتوں کے ظہور کا انتظار کرو ۔ لیکن بارش سے صرف وہی زمین فائدہ اٹھا سکتی ہے جس میں اس کی استعداد ہو۔ شور زمین پر کتنی ہی بارش ہو سرسبز نہ ہوگی اور گندگی کے ڈھیر سے یہی بارش بدبو کے سوا کچھ اضافہ نہ کرے گی۔ اسی طرح قرآن کریم کی ہدایت سے بھی یہی روحیں شاداب ہوں گی جن میں قبولیت حق کی استعداد ہے ۔ جنہوں نے یہ استعداد کھودی ان کے حصہ میں محرومی و نامرادی کے سوا کچھ نہیں آئے گا اور جن کے دلوں کی زمین بھی ناپاک ہوچکی ہے وہ کفر طغیان میں اور بھی زیادہ بڑھ جائیں گے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” وہی ہے جس نے سورج کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو روشن اور پھر چاند کی منزلوں کا اندازہ ٹھہرادیا تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو۔ اللہ نے یہ سب کچھ نہیں بنایا ہے مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ ان لوگوں کے لئے جو جاننے والے ہیں وہ اپنی قدرت و حکمت کی دلیلیں کھول کر بیان کردیتا ہے۔ بلاشبہ اس بات میں کہ رات کے پیچھے دن اور دن کے پیچھے رات آتی ہے اور بلاشبہ ان تمام چیزوں میں جو اللہ نے آسمانوں میں اور زمین میں پیدا کی ہیں ان لوگوں کے لئے قدرت و حکمت کی نشانیاں ہیں جو متقی و پرہیز گار ہیں۔ “ (یونس 15 : 5 ، 6) ایک عقل و فکر والے انسان کے لئے تمام نظام خلقت اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہاں کوئی بات بغیر حکمت و مصلحت کے نہیں ہے ۔ سورج کو دیکھو جس کی درخشندگی سے تمام ستارے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ چاند کو دیکھو جس کی گردش 28 منزلیں مقرر کردی ہیں اور اس سے تم مہینے کا حساب کرتے ہو اور برسوں کی گنتی معلوم کرتے ہو۔ اگر یہ سب کچھ بغیر مصلحت کے نہیں ہے تو کیا ممکن ہے کہ انسان کا وجود بغیر کسی غرض و مصلحت کے ہو اور صرف اس لئے ہو کہ کھائے پئے اور مرکر ہمیشہ کے لئے فنا ہوجائے ؟ غور کرو کہ اس طرح کے تمام مواعظ کا خاتمہ ہمیشہ اسی قسم کے جملوں پر ہوتا ہے کہ : لقوم یعلمون لقوم یعقلون کیونکہ ان باتوں کو وہی سمجھ سکتا ہے جو علم و بصیرت سے محروم نہ ہو۔ افسوس کہ وہ لوگ جو علماء کے نام سے موسوم کئے جاتے ہیں وہی آج یہ سبق دے رہے ہیں کہ اسلام کی باتیں عقل کے ساتھ نہیں سمجھی جاتیں ؟ اسلام میں عقل کو دخل نہیں ہے ؟ جب اسلام کہتا ہے کہ میں سراسر عقل و فکر ہوں۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی خشکی اور تری میں سیرو گردش کا سامان کردیا ہے ۔ پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ تم جہازوں میں سوار ہوتے ہو جہاز موافق ہوا پا کر تمہیں لے اڑتے ہیں مسافر خوش ہوتے ہیں کہ کیا اچھی ہوا چل رہی ہے پھر اچانک ہوائے تند کے جھونکے نمودار ہوجاتے ہیں اور ہر طرح سے موجیں ہجوم کرنے لگتی ہیں اور مسافر خیال کرتے ہیں بس ان میں گھر گئے اور بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو اس وقت انہیں اللہ کے سوا کوئی ہستی یاد نہیں آتی وہ دین کے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتے ہیں اے اللہ ! اگر اس حالت سے ہمیں نجات دے دے تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے ۔ پھر دیکھو جب اللہ انہیں نجات دے دیتا ہے تو اچانک اپنا عہد و پیمان بھول جاتے ہیں اور ناحق ملک میں سر کشی و فساد کرنے لگتے ہیں۔ اے لوگو ! تمہاری سر کشی کا وبال تو خود تمہاری ہی جانوں پر پڑنے والا ہے۔ یہ دنیا کی چند روزہ زندگی کے فائدے ہیں سو اٹھا لو پھر تمہیں ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے اس وقت ہم تمہیں بتائیں گے کہ جو کچھ دنیا میں کرتے رہے اس کی حقیقت کیا تھی۔ دنیا کی زندگی کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے یہ معاملہ کہ آسمان سے ہم نے پانی برسایا اور زمین کی نباتات جو انسانوں اور چارپایوں کے لئے غذا کا کام دیتی ہیں اس سے شاداب ہو کر پھلی پھولیں اور باہم دگرمل گئیں پھر جب وہ وقت آیا کہ زمین نے اپنے سبزی اور لالی کے سارے زیور پہن لئے اور لہلہاتے ہوئے خوشنما ہوگی اور زمین کے مالک سمجھے اب فصل ہمارے قابو میں آگئی ہے تو اچانک ہمارا حکم دن کے وقت یا رات کے وقت نمودار ہوگیا اور ہم نے زمین کی ساری فصل اس طرح بیخ و بن سے اکھاڑ کر دکھ دی گویا ایک دن پہلے تک اس کا نام و نشان ہی نہ تھا ! اس طرح ہم حقیقت کی دلیلیں کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔ “ (یونس 10 : 22 ، 24) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” یہ اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور اوپر سے پانی برسایا جس کی آبیاری سے طرح طرح کے پھل پیدا ہوتے ہیں کہ تمہارے لئے غذا کا سامان ہیں جہاز تمہارے لئے مسخر کردیئے کہ اس کے حکم سے یعنی اس کے ٹھہرائے ہوئے قانون کے تحت سمندر میں چلنے لگیں نیز دریا بھی تمہارے لیے مسخر کردیئے اور اس طرح سورج اور چاند بھی مسخر کردیئے ہیں کہ ایک خاص دستور پر برابر چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کا ظہور بھی مسخر ہے ۔ غرض کہ تمہیں اپنی زندگی کے لئے جو کچھ مطلب تھا سب اس نے عطا فرما دیا اگر تم اللہ کی نعمتیں گننی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی ان کا احاطہ نہ کرسکو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑاہی نانصاف ، بڑاہی ناشکرا ہے۔ “ (ابراہیم 14 : 32 ، 33) وہ فرماتا ہے کہ اپنی زندگی کی احتیاجوں کو دیکھو اور پھر ربوبیت الٰہی کی بخششوں اور کار فرمائیوں پر نظر ڈالو اور زندگی کی کوئی قدرتی احتیاج ایسی نہیں ہے جس کا قدرتی انتظام نہ کردیا گیا ہو اور کارخانہ عالم کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو تمہارے لئے افادہ و فیضان نہ رکھتا ہو۔ حتی کہ معلوم ہوتا ہے دنیا کی ہرچیز صرف اس لئے نبی ہے کہ تمہاری کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کردے اور کسی نہ کسی شکل میں خدمت و نفع رسائی کا ذریعہ ہو پھر کیا ممکن ہے کہ یہ سب کچھ بغیر کسی ارادہ کے ظہور میں آگیا ہو اور کوئی ربوبیت رکھنے والی ہستی موجود نہ ہو ؟ اور اگر ایک ہستی موجود ہے تو ہر طرح کی عبادتوں کی مستحق اسی کی ذات ہے یا ان کی جو اپنی احتیاجوں میں خود کسی پروردگار کی پروردگار یوں کے محتاج ہیں ؟ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ﷺ ! انہیں دنیا کی زندگی کی مثال سنا دو اس کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی روئیدگی کا معاملہ کہ آسمان سے ہم نے پانی برسایا اور زمین کی روئیدگی اس سے مل جل کر ابھر آئی یعنی خوب پھلی اور پھولی پھر کیا ہوا ؟ ہوا یہ کہ سب کچھ سوکھ کر چورا چورا ہوگیا اور ہوا کے جھونکے اسے اڑا کر منتشر کر رہے ہیں اور کونسی بات ہے جس کے کرنے پر اللہ اپنے قانوں کے مطابق قادر نہیں ؟ “ فرمایا کہ دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی روئیدگی ، آسمان سے پانی برستا ہے اور طرح طرح کی سبزیوں اور لالیوں سے زمین کا گوشہ گوشہ بہشت زار ہوجاتا ہے جس طرح نگاہ اٹھاؤ پھولوں کا حسن و جمال ہے یا دانوں اور پھلوں کا فیضان ۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ وہی کھیت جن کا ایک ایک درخت زندگی کا سرمایہ اور بخشش وفیضان کا کارخانہ تھا اچانک کس عالم میں نظر آنے لگتا ہے ؟ اللہ نے فرمایا : فَاَصْبَحَ ہَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ 1ؕ، بھوسے کے ذرے جنہیں ہوا کے جھونکے اڑا کر منتشر کردیتے ہیں ! نہ کوئی انہیں بچانا چاہتا ہے نہ وہ کسی مصرف کے ہوتے ہیں ۔ بہت کام دیں گے تو چولہے میں جلنے کے لئے ڈال دیئے جائیں گے یا ان کو اکٹھا کر کے ڈھیر لگا کر ان پر دیا سلائی سلگا دی جائے گی اور اگر یہ بھی نہ ہوا تو پاؤں تلے روندے جائیں گے اور وہ ایک جگہ ٹھہر نہیں سکیں گے کیونکہ اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” کیا تم نے یہ منظر نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور سوکھی زمین سرسبز ہو کر لہلہانے لگتی ہے ؟ یقین کرو اللہ بڑا ہی لطف کرنے والا ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے ۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے وہی ہے جو بےنیاز ہے اور ہر طرح ستائشوں کا سزاوار ہے۔ کیا تم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لئے مسخر کردی ہیں ؟ جہاز کو دیکھو کس طرح وہ اس کے حکم سے سمندر میں تیرتا چلا جاتا ہے ؟ پھر کس طرح اس نے آسمان کو یعنی فضا ، سماوی کے اجرام کو تھامے رکھا کہ زمین گریں نہیں اور گریں تو اس کے حکم سے ؟ بلاشبہ اللہ انسان کے لیے بڑا ہی شفقت رکھنے والا اور بڑی ہی رحمت والا ہے۔ اور دیکھو وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی پھر وہ موت طاری کرتا ہے پھر دوبارہ زندہ کرے گا دراصل انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ “ (الحج 22 : 64 ، 66) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ پہلے ہوائیں چلتی ہیں پھر ہوائیں بادل کو حرکت میں لاتی ہیں پھر وہ اللہ جس طرح چاہتا ہے انہیں فضا میں پھیلا دیتا ہے اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بادلوں میں سے مینہ نکل رہا ہے پھر جن لوگوں کو بارش کی یہ برکت پہنچتی ہے تو وہ اچانک خوش ہوجاتے ہیں گو وہ لوگ اس بارش سے پہلے مایوس ہو رہے تھے۔ پس رحمت الٰہی کی نشانیوں کو دیکھو کہ وہ زمین کو موت کے بعد دوبارہ زندگی بخشتا ہے بیشک وہ موت کو زندگی سے بدل دینے والا ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔ “ (الروم 30 : 49 ، 50) اس پہلی آیت میں رسولوں کو بھیجنے کا تذکرہ تھا اور یہاں بارش بھیجنے کا اس میں گویا اشارہ ہے کہ رسول کی آمد بھی انسان کی اخلاقی ورحانی زندگی کے لئے ویسی ہی رحمت ہے جیسے اس کی مادی و معاشی زندگی کے لئے بارش کی آمد ! بارش سے اگر زمین زندہ ہوتی ہے اور لوگوں کی مادی زندگی میں انقلاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے تو رسول کی آمد سے بھی انسانوں کے دلوں کی کھیتیاں سر سبز ہوجاتی ہیں اس سے نبوت کی ضرورت پر استدلال ہے کہ جس نے تمہاری جسمانی ضروریات کا بندوبست کیا ہے اس کی ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ تمہاری روحانی اصلاح کا بھی بندوبست کرے۔ دنیا میں صرف یہی نہیں کہ پانی موجود ہے بلکہ ایک خاص نظام وترتیب سے موجود ہے۔ کیوں یہ سب کچھ ایسا ہی ہوا ؟ کیوں ایسا نہ ہوا کہ پانی موجود ہوتا مگر اس انتظام اور ترتیب سے نہ ہوتا ؟ قرآن کریم کہتا ہے اس لئے کہ کائنات ہستی میں ربوبیت کارفرما ہے اور ربوبیت کا مقتضاء یہی ہے کہ پانی اس ترتیب سے بنے اور اسی ترتیب و مقدار سے تقسیم ہو۔ یہ رحمت و حکمت تھی جس نے پانی پیدا کیا اور یہ ربوبیت ہے جو اسے اس طرح کام میں لائی کہ پرورش اور رکھوالی کی تمام ضرورتیں پوری ہوگئیں۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں پھر ہم بادل کو کسی خشک علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ مری پڑی زمین کو جلا اٹھاتے ہیں اس طرح لوگوں کا جی اٹھنا ہوگا۔ جو لوگ عزت کے بھوکے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ تمام عزت بخشیاں اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں تمہارے اعمال صالحہ اس کی درگاہ تک پہنچتے ہیں اور وہی نیک عمل کرنے والوں کے درجے بلند کرتا ہے ۔ ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کا گھر خود ہی نابود ہوجائے گا۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑا جوڑا بنایا۔ کوئی مادہ حاملہ نہیں ہوتی اور نہ وہ وضع حمل کرتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر ملتی ہے اور نہ کسی کی عمر کم کی جاتی ہے مگر یہ سب کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ بلاشبہ یہ سب کام اللہ پر بالکل آسان ہیں اور وہ دونوں دریا کیفیت میں مساوی نہیں ہے۔ ایک میٹھا پیاس بجھانے والا پینے میں خوشگوار ہے اور ایک کھاری کڑوا ہے ہر ایک میں سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زینت کا وہ سامان نکالتے ہو جس کو تم پہنتے ہو اور اے مخاطب تم پانی میں کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ اس کا سینہ چرتی ہوئی چلی جاتی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اسی کے شکر گزار بنو۔ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے کہ ان میں ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے گا۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے اس کی بادشاہی ہے اور اس کے سواجن کو تم پکارتے ہو وہ ذرہ بھر بھی اختیار نہیں رکھتے اور اگر تم ان کو پکارو بھی تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر سن بھی لیں تو اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے اور وہ قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کردیں گے اور حقیقت حال کی صحیح خبر تمہیں اللہ خبیر کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ “ (فاطر 5 : 9 تا 13) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اللہ نے آسمانوں یعنی اجرام سماویہ کو پیدا کردیا اور تم دیکھ رہے ہو کہ کوئی ستون انہیں تھامے ہوئے نہیں اور زمین میں مضبوط پہاڑ ڈال دیئے تاکہ وہ تمہیں لے کر یعنی اٹھا کر ہلتی ہی نہ رہے اور اس میں ہر قسم کے حیوانات پھیلا دیئے اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس میں ہر قسم کی عمدہ عمدہ چیزیں اگائیں ۔ یہ سب چیزیں تو اللہ کی پیدا کی ہوئی ہیں اب مجھے یہ تو دکھاؤ کہ اس کے سوا اوروں نے کیا پیدا کیا ؟ دراصل یہ ظالم صریح گمراہی میں مبتلا ہیں۔ “ (لقمان 31 : 10 ، 11) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” یہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو بلند کردیا اور تم دیکھ رہے ہو کوئی ستون انہیں تھامے ہوئے نہیں ہے پھر وہ اپنے تخت پر نمودار ہوا یعنی مخلوقات میں اس کے احکام جاری ہوگئے اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا کہ ہر ایک اپنی ٹھہرائی ہوئی معیاد تک اپنی اپنی راہ پر چلا جا رہا ہے وہی اس تمام کارخانہ خلقت کا انتطام کر رہا ہے اور اپنی قدرت و حکمت و نشانیاں الگ الگ کر کے بیان کردیتا ہے تاکہ تمہیں یقین ہوجائے کہ ایک دن اپنے پروردگار سے ملنا ہے۔ اور دیکھو وہی ہے جس نے زمین کی سطح پھیلا دی اس میں پہاڑ بنا دیئے ، نہریں جاری کردیں اور ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے دو دو قسموں کے اگادیئے اس نے رات اور دن کے بتدریج ظاہر ہونے کا ایسا قاعدہ بنا دیا کہ دن کی روشنی کو رات کی تاریکی ڈھانپ لیا کرتی ہے یقیناً اس بات میں ان لوگوں کے لئے کتنی ہی نشانیاں ہیں جو غور وفکر کرنے والے ہیں اور دیکھو زمین میں طرح طرح کے ٹکڑے ہیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ان میں انگور کے باغ ہیں ، غلہ کی کھیتیاں ، کھجور کے درخت ہیں جو باہم ملتے جلتے ہیں اور بعض ایسے کہ ملتے جلتے ہوئے نہیں ہیں ، سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں مگر بعض پھلوں کو بعض پر مزہ میں برتری دے دیتے ہیں یقیناً اس بات میں ان لوگوں کے لئے بڑی ہی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ “ (الرعد 13 : 2 ، 4) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” وہ پروردگار جس نے تمہارے لئے زمین بچھونے کی طرح بچھا دی۔ نقل و حرکت کے لئے اس میں راہیں نکال دیں ۔ آسمان سے پانی برسایا اس کی آب پاشی سے ہر طرح کی نباتات کے جوڑے پیدا کردیئے ۔ خود بھی کھاؤ اور اپنے مویشی بھی چراؤ اسی بات میں عقل والوں کے لئے کیسی کھلی نشانیاں ہیں ؟ اس نے اس زمین سے تمہیں پیدا کیا اس میں لوٹاتا ہے اور پھر اس سے دوسری مرتبہ اٹھائے جاؤ گے۔ “ (طہ 20 : 53 ، 55) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو وہ یہی جواب دیں گے کہ ان کو اس زبردست اور کمال علم کے مالک نے پیدا کیا ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے بنا دیئے تاکہ تم منزل مقصود تک پہنچ سکو اور جس نے آسمانوں سے ایک خاص اندازے کے ساتھ پانی برسایا۔ پھر ہم نے اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کیا اسی طرح تم بھی قبروں سے نکالے جاؤ گے اور جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کئے اور کشتی اور جانور تمہارے لئے پیدا کئے جن پر تم سوار ہوتے ہو تاکہ تم ان کی پیٹھ پر سیدھے سوار ہوجاؤ اور پھر اپنے اللہ کے احسان یاد کرو اور کہو کہ پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے مخلوقات کو مسخر کردیا اور ہم اپنی قوت سے انہیں مسخر نہ کرسکے۔ “ (الزخرف 43 : 9 ، 13) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور دیکھو اسی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر یکایک تم بشر ہو کہ زمین میں پھیلتے جا رہے ہو اور اس کی رحمت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہی میں سے جوڑے پیدا کردیئے یعنی مرد کے لئے عورت اور عورت کے لئے مرد پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت کا جذبہ پیدا کردیا۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لئے جو غور وفکر کرنے والے ہیں اس میں حکمت الٰہی کی بڑی ہی نشانیاں ہیں اور حکمت الٰہی کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی آسمانوں اور زمین کی خلقت ہے اور طرح طرح کے رنگوں اور بولیوں کا پیدا ہونا ہے فی الحقیقت اس میں بڑی ہی نشانیاں ہیں ارباب علم و حکمت کے لئے اور اللہ کی آیات میں تمہارا رات کو سونا اور دن میں اللہ کے احسان تلاش کرنا ہے بلاشبہ اس میں سننے والوں کے لئے بڑی ہی نشانیاں ہیں اور دیکھو قدرت و حکمت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ وہ بجلی کی کڑک اور چمک نمودار کرتا ہے اور اس سے تم پر خوف اور امیددونوں حالتیں طاری ہوتی ہیں اور آسمان سے پانی برساتا ہے اور پانی کی تاثیر سے زمین مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھتی ہے بلاشبہ اس صورت حال میں ان لوگوں کے لئے جو عقل و بینش رکھتے ہیں حکمت الٰہی کی بڑی ہی نشانیاں ہیں اور اسکی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں پھر جو نہی کہ وہ تم کو زمین سے پکار کر بلائے گا تم سب اچانک زمین سے نکل پڑوگے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور سب کے سب اسی کے حکم کے تابع ہیں۔ وہی ہے جو ابتداء مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ اس کے لئے آسان تر ہے اور آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے بالاتر ہے اور وہ زبردست اور کامل حکمت والا ہے۔ “ (الروم 30 : 20 ، 27) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور دیکھو یہ ہماری کار فرمائی ہے کہ آسمان میں برج بنا دیئے یعنی روشن کو اکب پیدا کردیئے اور اسے دیکھنے والوں کے لئے خوشنما کردیا نیز ہر پھٹکارے ہوئے شیطان سے اس کی حفاظت کردی ۔ سوائے اس کے کوئی سن گن لینا چاہے تو پھر ایک چمکتا ہوا شعلہ ہے جو اس کا تعاقب کرتا ہے اور دیکھو ہم نے زمین کی سطح پھیلا دی اور اس میں پہاڑ گاڑ دیئے نیز جتنی چیزیں اس میں اگائیں سب وزن کی ہوئی اگائیں اور تمہارے لئے معیشت کا سارا سامان مہیا کردیا اور ان مخلوقات کے لئے بھی کردیا جن کے لئے تم روزی مہیا کرنے والے نہیں ہو اور دیکھو کوئی چیز ایسی نہیں جس کے ذخیرے ہمارے پاس نہ ہوں مگر ہم انہیں ایک ٹھہرائے ہوئے اندازہ کے مطابق ہی بھیجتے ہیں اور دیکھو ہم نے ہوائیں چلائیں کہ پانی کے ذروں سے بار دات تھیں پھر آسمان سے پانی برسا دیا اور وہ تمہارے پینے کے کام آیا اور تم نے اسے ذخیرہ کر کے نہیں رکھا اور یہ ہم ہی ہیں کہ جلاتے ہیں اور موت طاری کرتے ہیں اور ہمارے ہی قبضہ میں سب کی کمائی آتی ہے اور بلاشبہ ہم نے ان لوگوں کو بھی جانا جو تم میں پہلے آنے والے تھے اور انہیں بھی جو پیچھے آنے والے ہیں ۔ اے پیغمبر اسلام ! یہ تیرا پروردگار ہی ہے جو ان سب کو قیامت کے دن اپنے سامنے جمع کرے گا وہ حکمت والا علم والا ہے۔ “ (الحجر 15 : 16 ، 25) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” کیا تم نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ یہ اللہ ہی ہے جو ابر کی چادروں کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے پھر انہیں آپس میں جوڑ دیتا ہے پھر انہیں اس طرح کردیتا ہے کہ ایک تہہ پر دو سری تہہ چڑ ھ جاتی ہے اور سب مل جل کر ایک ہوجاتے ہیں پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے اندر سے پانی کے قطرے نکل رہے ہیں اور مینہ کا سماں بندھ گیا ہے اس طرح آسمان سے ٹھنڈک کے پہاڑ اتارتا ہے یعنی برف گرتی ہے اور پہاڑوں کی طرح اس کے تودے جم جاتے ہیں پھر جس کو چاہتا ہے اس کا اثر پہنچا دیتا ہے جس کسی سے چاہتا ہے اسے ہٹا دیتا ہے اور اس عالم میں بجلی کی چمک کا یہ حال ہوتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ بس اب آنکھیں خیرہ ہو کر رہ جائیں گی مگر وہ رات اور دن کا الٹ پھیر کرتا رہتا ہے اسلئے کوئی حالت بھی یہاں یکساں نہیں رہتی۔ بلاشبہ اس صورت حال میں ان لوگوں کے لئے بڑی ہی عبرت ہے جو صاحب بصیرت ہیں اور پھر دیکھو یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ اس نے تمام جانداروں کو پانی سے پیدا کیا ۔ ان میں کچھ ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں کچھ ایسے ہیں کہ دو پاؤں سے چلتے ہی کچھ ایسے ہیں جو چار پاؤں سے چلتے ہیں۔ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اس کی قدرت سے کوئی چیزباہر نہیں۔ “ (النور 24 : 43 ، 45) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” ہم ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تم یقین کیوں نہیں کرتے ؟ بھلا تم نے یہ کبھی سوچا ہے کہ جو نطفہ تم رحم میں ٹپکاتے ہو کیا تم اس کو پیدا کرتے ہو یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟ ہم نے تمہارے درمیان موت کو مقرر کیا ہے اور ہم اس بات سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری مانند کوئی اور مخلوق یہاں لابسائیں اور تمہیں کسی ایسے جہان میں پیدا کریں جسے تم نہیں جانتے اور بلاشبہ تم نے اپنی پہلی پیدائش کو جان لیا ہے پھر تم کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ اچھا تم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ جو کچھ کاشتکاری کرتے ہو اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کردیں اور تم صرف یہ کہنے کے لئے رہ جاؤ کہ افسوس ہمیں تو اس نقصان کا تاوان دینا پڑے گا بلکہ ہم تو اپنی محنت کے تمام فائدوں سے محروم ہوگئے۔ اچھا تم نے کبھی یہ بات دیکھی کہ جو پانی تمہارے پینے میں آتا ہے اسے کون برساتا ہے ؟ کیا تم برساتے ہو یا ہم برساتے ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری کردیں پھر کیا اس نعمت کے لئے ضروری نہیں کہ تم شکر گزار ہو ؟ اچھا تم نے کبھی یہ بات بھی دیکھی کہ یہ آگ جو تم سلگاتے ہو تو اس کے لئے لکڑی تم نے پیدا کی ہے یا ہم پیدا کر رہے ہیں ؟ ہم نے اسے یاد گار اور مسافروں کے لئے فائدہ بخش بنایا ہے۔ “ (الواقعہ 56 : 57 تا 73) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب کس طرح سائے کو پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس کو ایک ہی حالت پر ٹھہرائے رکھتا پھر ہم نے اس سائے پر سورج کو علامت بنا دیا ہے ۔ پھر ہم اس کو اپنی طرف آہستہ آہستہ سمیٹ لیتے ہیں اور اللہ وہ ہے جس نے رات کو تمہارے لئے بمنزلہ لباس اور نیند کو راحت اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا اور وہی ہے جو اپنی رحمت یعنی بارش کے آگے آگے بشارت دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہی ہے جو آسمان سے پاک پانی اتارتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ایک علاقے کو زندگی بخشے اور اپنی مخلوقات سے بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو اس سے سیراب کرتا ہے اور ہم ہی ہیں جو اس بارش کو لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں تاکہ وہ اس نصیحت حاصل کریں۔ پھر بھی اکثر لوگ کفر اور ناسپاسی کے سوا دوسرا رویہ اختیار کرنے سے انکار ہی کرتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے تو ہر ایک بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے۔ سوائے پیغمبر اسلام ! آپ ان کافروں کا کہنا نہ مانئے اور اس قرآن کریم کے ذریعہ ان کا سخت مقابلہ کیجئے اور وہی قادر مطلق ہے جس نے دو دریاؤں کو آپس میں ملایا ایک کا پانی شیریں و خوش ذائقہ اور ایک کھاری و کڑوا پھر دو ونوں کے درمیان ایک ایسی حد فاصل اور روک رکھ دی کہ دونوں باوجود ملنے کے الگ الگ رہتے ہیں اور وہی حکیم و قدیر ہے جس نے پانی نطفہ سے انسان کو پیدا کیا پھر اس کو رشتہ پیدائشی کے ذریعہ سے نسب اور مہر کا رشہ رکھنے والا بنا دیا اور تیرا رب قدرت والا ہے۔ “ (الفرقان 25 : 45 ، 54) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اس نے رات اور دن کے اختلاف و ظہور کا ایسا انتظام کردیا کہ رات دن پر لپٹی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹا آتا ہے اور سورج اور چاند دونوں کو اس کی قدرت نے مسخر کر رکھا ہے اور سب اپنے مقررہ وقت تک کے لئے گردش کر رہے ہیں۔ آگاہ رہو کہ وہ زبردست اور بڑا بخشنے والا ہے۔ اس نے تم کو اکیلی جان سے پیدا کیا پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا اور اس نے تمارے لئے مویشوں میں آٹھ نر اور مادہ پیدا کئے۔ وہی تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تین تاریک پردوں میں ایک شکل کے بعد دوسری شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے اس کی سلطنت ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو پھر تم کہاں سے کہاں پھرائے جا رہے ہو۔ “ (الزمر 39 : 5 ، 6) ایک جگہ فرمایا : ” کیا تم نے دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر زمین میں اس کے چشمے رواں ہوگئے پھر اس پانی سے رنگ برنگ کی کھیتیاں لہلہا اٹھیں پھر ان کی نشو ونما میں ترقی ہوئی اور پوری طرح پک کر تیار ہوگئیں پھر اس ترقی کے بعد زوال طاری ہوا اور تم دیکھتے ہو کر ان پر زردی چھا جاتی ہے پھر وہ خشک ہو کر چورہ چورہ ہوجاتی ہیں۔ بلاشبہ دانشمندوں کے لئے اس صورت حال میں بڑی ہی عبرت ہے۔ “ (الزمر 39 : 21) ان آیات پر غور کرو اور دیکھو کہ ان میں قانون قدرت کی طرف اشارہ کیا ہے جو سب ہی یکساں جاری وساری ہے یعنی بارش سے کھیتی کا اتنا اور مختلف مدارج طے کرنے کے بعد اسکا فنا ہوجانا۔ اس میں عقلمندوں کیلئے نصیحت ہے اور فرمایا کہ دیکھو گے تو خود انسان کی بھی یہی حالت تم کو نظر آئے گی کہ پہلے بچہ ہوتا ہے پھر جوان ہوتا ہے پھر پختہ ہو کر بوڑھا ہوجاتا ہے اور انجام کار دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے اور یہی حال دنیا کا ہے اسکی سب زینتیں عارضی اور چند روزہ ہیں اور آخر کار اسکی ہرچیز کو فنا ہے اسکے ہر کمال کو انحطاط ہے اور ہر عروج کو زوال ہے۔ نظام ربوبیت کی یہ یکسانی اور ہم آہنگی ہر وجود اور ہر گوشے میں نظر آتی ہے ۔ انسان کا بچہ درخت کا پودا تمہاری نظر میں کتنی ہی بےجوڑ چیزیں ہیں لیکن اگر ان کے نشو ونما کا کھوج لگاؤ گے تو دیکھ لو گے کہ قانون پرورش کی یکسانی نے دونوں کو ایک ہی رشتے میں منسلک کردیا ہے ۔ یہاں تک کہ ہر وجود اپنے سن کمال تک پہنچ جاتا ہے اور جب سن کمال تک پہنچ گیا تو از سر نو ضعف وانحطاط کا دور شروع ہوجاتا ہے پھر اس دور کا خاتمہ بھی سب کے لیے ایک طرح کا ہے ۔ کسی دائرے میں اسے مر جانا کہتے ہیں اور کسی میں مر جھا جانا اور کسی میں پامال ہوجانا۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” کیا تم اس سے منکر ہو جس نے زمین دو دن یعنی دو ادوار میں بنائی اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک اور ہم پایہ بناتے ہو یہی اللہ ہے جو رب ہے تمام جہانوں کا اور اس نے اس زمین میں کتنے بھاری پہاڑ رکھے اوپر سے اور اس میں برکتیں رکھ دیں زمین پر رہنے والوں کے لئے۔ اس میں سب مانگنے والوں کے لئے ٹھیک انداز سے خوراک کے سامان مہیا کردیئے اور یہ سب کام چار دن میں ہوگئے پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں ہو رہا تھا سو اس سے اور زمین سے کہا کہ وجود میں آجاؤ خوشی سے یا ناخوشی سے تو انہوں نے بزبان حال پکارکر کہا ہم آگئے ، فرمانبردار بن کر۔ تو اس نے دو دن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب حال حکم بھی وحی کردیا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا اور اسے خوب محفوظ کردیا یہ سب کچھ ایک زبردست ہرچیز کو خوب جاننے والی ہستی کا مقرر کردہ نظام ہے۔ (حم السجدہ 41 : 9 تا 12) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” جو لوگ منکر ہیں کیا انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان و زمین دونوں اپنی ابتدائی خلقت میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور پانی سے تمام جاندار چیزیں پیدا کیں ؟ پھر کیا یہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے ؟ اور ہم نے زمین میں جمے ہوئے پہاڑ بنا دئے کہ ایک طرف کو ان کے ساتھ جھک نہ پڑے اور ہم نے ان میں یعنی پہاڑوں میں ایسے درے بنا دیئے کہ راستوں کا کام دیتے ہیں تاکہ لوگ اپنی منزل مقصود پالیں۔ اور ہم نے آسمان کو ایک چھت کی طرح بنا دیا ہر طرح کے نقص اور خرابی سے محفوظ مگر یہ لوگ اس کی نشانیوں سے رخ پھیرے ہوئے ہیں۔ “ اور دیکھو وہی ہے جس نے رات اور دن کا اختلاف پیدا کیا اور سورج اور چاند بنائے یہ تمام ستارے اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں اور اے پیغمبر اسلام ! ہم نے تجھ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشگی نہیں دی اور نہ ہی تیرے لئے ہمیشہ زندہ رہنا ہے پھر اگر تجھے مرنا ہے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں ؟ ہر ایک جان کے لئے موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تمہیں زندگی کی اچھی بری حالتوں کی آزمائش میں ڈالتے ہیں تاکہ تمہارے لئے یعنی تمہارے سعی و طلب کے لئے آزمائشیں ہوں اور پھر بالاخر تم سب کو ہماری طرف لوٹنا ہے۔ (الانبیاء 21 : 30 تا 35) ایک جگہ ارشاد ہوا : ” پاکیزگی اور بزرگی ہے اس ذات کے لئے جس نے زمین کی پیداوار میں اور انسان میں اور ان تمام مخلوقات میں جن کا انسان کو علم نہیں دو دو اور متقابل چیزیں پیدا کیں۔ ان کے لئے ایک اور نشانی رات ہے اس پر سے ہم دن کو اتار لیتے ہیں تو وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں اور دیکھو سورج کے لئے جو قرار گاہ ٹھہرا دی گئی ہے وہ اس پر چلتا ہے اور یہ عزیز وعلیم اللہ کی اس کے لئے تقدیر ہے اور چاند کے لئے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ وہ آخر میں وہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح رہ جاتا ہے۔ نہ تو آفتاب کے اختیار میں ہے کہ چاند لو جالے اور نہ ہی رات کے بس میں ہے کہ دن سے پہلے ظاہر ہوجائے اور تمام اجرام سماویہ اپنے اپنے دائروں کے اندر پھر رہے ہیں۔ اور ان کے لئے نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا اور ہم نے اس جیسی اور کشتیاں بھی پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو ان کو غرض کردیں پھر نہ کوئی ان کا فریاد رس ہو اور نہ کسی اور طرح بچائے جاسکیں مگر یہ ہماری رحمت ہے جو انہیں پار لگاتی ہے اور ایک وقت معین تک ان کی زندگی سے متمتع ہونے کا موقع دیتا ہے۔ “ (یٰسین 36 : 36 تا 44) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے لوگو ! تمہارا پروردگار تو وہ ہے جو تمہاری کار براریوں کے لئے سمندر میں جہاز چلاتا ہے تاکہ تم سیر و سیاحت کے ذریعے اس کا فضل تلاش کرو بلاشبہ وہ تم پر بڑی ہی رحمت رکھنے والا ہے۔ اور جب کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم سمندر میں ہوتے ہو اور مصیبت آ لگتی ہے تو اس وقت تم سے تمام ہستیاں کھوئی جاتی ہیں جنہیں تم پکارا کرتے ہو۔ صرف ایک اللہ ہی کی یاد باقی رہ جاتی ہے پھر جب وہ تمہیں مصیبت سے نجات دے دیتا ہے اور خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے گردن موڑ لیتے ہو حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ “ پھر کیا تمہیں اس سے امن مل گیا ہے کہ وہ تمہیں خشکی کے کسی گوشے میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی آندھیاں بھیج دے اور تم اس حال میں کسی کو اپنا مددگار نہ پائو یا تم اس بات سے بےخوف ہوگئے ہو کہ اللہ تمہیں دوبارہ ویسی ہی مصیبت میں ڈال دے اور ہوا کا ایک سخت طوفان بھیج دے اور تمہاری ناشکری کی پاداش میں تمہیں غرق کر دے اور پھر کسی کو نہ پائو جو اس کے لئے ہم پر دعویٰ کرنے والا ہو ؟ اور البتہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور خشکی اور تری دونوں کی قوتیں اس کے تابع کردیں کہ اسے اٹھائے پھرتی ہیں اور اچھی چیزیں اس کی روزی کے لئے مہیا کردیں نیز جو مخلوقات ہم نے پیدا کی ہیں ان میں سے اکثر پر اسے بر تری دے دی پوری برتری جیسی کہ ہونی چاہئے ! (بنی اسرائیل 17 : 66 تا 70) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے آسمان سے تمہارے لئے پانی برسایا۔ پھر اس آبپاشی سے خوش نما باغ اگائے حالانکہ تمہارے بس کی یہ بات نہ تھی کہ ان باغوں کے درخت لگاتے کیا ان کاموں کا کرنے والا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے ؟ افسوس ان لوگوں کی سمجھ پر حقیقت حال خواہ کتنی ہی ظاہر ہو مگر یہ وہ لوگ ہیں جن کا شیوہ ہی کج روی ہے۔ اچھا بتاؤ وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا ؟ اور اس کے درمیان میں نہریں بہائیں اور اس کے لیے بھاری پہاڑ بنائے اور دو دریاؤں کے درمیان حجاب بنایا ، کیا اللہ کے سوا کوئی معبود ہے (جو یہ سارے کام کرسکتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ) ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں۔ بھلا مضطرب جب پکارتا ہے تو اس کی التجاؤں کو کون سنتا ہے ؟ اور کون ہے جو ان کے دکھ درد کو دور کرتا ہے ؟ اور کون ہے جس نے تم کو زمین پر جانشین بنایا ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (جو ایسا کرسکتا ہے) تم لوگ بہت ہی کم غور و فکر کرتے ہو۔ بھلا کون ہے جو تم کو خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راستہ بتاتا ہے ؟ اور کون ہے جو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری دے کر بھیجتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (جو ایسا کرسکتا ہے ؟ ) حقیقت یہ ہے کہ ان کے شرک سے بہت ہی بلندو برتر ہے۔ بھلا کون ہے جس نے مخلوقات کو پہلی بار پیدا کیا اور پھر دوبارہ پیدا کرے گا ؟ اور کون تم کو آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (جو ایسا کرسکے ؟ ! اے پیغمبر اسلام ! ) آپ ﷺ کہہ دیجئے اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔ “ (النمل 27 : 60 تا 64)
Top