Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 162
خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ
خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں لَا يُخَفَّفُ : نہ ہلکا ہوگا عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابُ : عذاب وَلَا : اور نہ ھُمْ : انہیں يُنْظَرُوْنَ : مہلت دی جائے گی
وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی حالت میں رہنے والے ہیں ، یقینا نہ تو ان کے عذاب میں کبھی کمی کی جائے گی اور نہ ہی انہیں مہلت ملے گی
ابدی محروموں کے لئے نہ تحفیف ہوگی اور نہ ہی مہلت دی جائے گی : 286: تخفیف کا تعلق بعد عذاب سے ہے اور مہلت کا تعلق قبل عذاب سے ۔ یعنی جن لوگوں کے لئے ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں رہنے کا فیصلہ ہوگیا وہ ابدی طور پر رحمت الٰہی سے محروم ہوگئے ایسے محروموں کے لئے نہ تو عذاب میں تحفیف ہوگی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ان کے لئے تخفیف نہیں ہوگی اور نہ ہی عذاب میں داخل ہونے سے پہلے کوئی مہلت انہیں ملے گی۔ آیات مذکورہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آیات بینات نازل کی گئی ہیں ان کا لوگوں سے چھپانا بڑا جرم ہے۔ اتنا بڑا جرم کہ اس پر اللہ اور اس کی تمام مخلوق کی لعنت برستی ہے جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ جس علم کے اظہار اور پھیلانے کی ضرورت ہے اس کا چھپانا حرام ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرمی ہے۔ من سئل عن علم یعلمہ فک تمہ الجمہ اللہ یوم القیامۃ بلجام من النار (رواہ ابوداود و عمرو بن عاص اخرجہ ابن ماجہ) یعنی جو شخص دین کے کسی حکم کا علم رکھتا ہے اور اس سے وہ حکم دریافت کیا جائے اگر وہ اس کو چھپائے گا تو قیامت کے روز اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ بات تو بالکل واضح ہے لیکن ان لوگوں کے لئے جو عالم یا فقیہ نہ ہوں علماء وفقہاء نے اس آیت سے جو مسائل نکالے ہیں ان کو بھی ذرا سن لو اور یا درکھو کہ علماء و فقہاء کن کو کہا جاتا ہے۔ ! حضرات فقہاء نے فرمایا کہ یہ وعید اس صورت میں ہے جب کہ اس کے سوا کوئی دوسرا آدمی مسئلہ کا بیان کرنے والاوہاں موجود نہ ہو اگر دوسرے علماء موجود ہوں تو گنجائش ہے کہ یہ کہہ دے کہ دوسرے علماء سے دریافت کرلو۔ " جس کو خود صحیح علم نہیں اس کو مسائل و احکام بتانے کی جرأت نہیں کرنا چاہتے۔ #یہ بھی معلوم ہوگیا کہ علم چھپانے کی یہ سخت وعید انہیں علوم مسائل کے متعلق ہے جو قرآن و سنت میں واضح بیان کئے ہیں اور جن کے ظاہر کرنے اور پھیلانے کی ضرورت ہے وہ باریک اور دقیق مسائل جو عوام نہ سمجھ سکیں بلکہ خطرہ ہو کہ وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں گے تو ایسے مسائل و احکام کا عوام کے سامنے بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے اور وہ کتمان علم کے حکم میں سے نہیں ہے کیونکہ آیت مذکورہ میں لفظ ” مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى “ سے اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ایسے ہی مسائل کے متعلق عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا اگر تم عوام کو ایسی احادیث سناؤ گے جن کو وہ پوری طرح نہ سمجھ سکیں تو ان کو فتنہ میں مبتلا کر دو گے۔ اس طرح صحیح بخاری میں حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا عام لوگوں کے سامنے صرف اتنے ہی علم کا اظہار کرو جس کو ان کی عقل و فہم برادشت کرسکے کیا تم یہ چاہتے ہو کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کریں۔ کیونکہ جو بات ان کی سمجھ سے باہر ہوگی ان کے دلوں میں اس سے شبہات وخدشات پیدا ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس سے انکار کر بیٹھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عالم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مخاطب کے حالات کا اندازہ لگا کر کلام کرے جس شخص کے غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو اس کے سامنے ایسے مسائل بیان ہی نہ کرے اس لئے حضرات فقہاء بہت سے مسائل کے بیان کے بعد لکھ دیتے ہیں : ھذا ھما یعرف ولا یعرف یعنی یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اہل علم کو خود تو سمجھ لینا چاہئے مگر عوام میں پھیلانا نہیں چاہئے۔ معلوم ہوگیا ہوگا کہ جن باتوں کو علماء بیان نہیں کرتے وہ کیوں بیان نہیں کرتے ؟ اور پھر بیان کرنے والوں کو وہ جاہل اور اَن پڑھ کا فتویٰ کیوں لگاتے ہیں ؟ وہ اسلامی درس گاہوں میں مخصوص علوم کیوں پڑھاتے ہیں ؟ وہ جدید علوم کو علوم کیوں نہیں سمجھتے ؟ وہ ان علوم پر الحاد اور کفر کے فتوے کیوں لگاتے ہیں ؟ وہ ہر ایجاد سے فائدہ حاصل کرنے کے باوجود موجد پر کفر کی ضرب کیوں لگاتے ہیں ؟ وہ اپنی مخصوص مجلسوں میں جو بیان کرتے ہیں وہ عوام کی مجالس میں بیان کرنے سے کیوں گریزاں ہیں ؟
Top