Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 161
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓئِكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوئے وَمَاتُوْا : اور وہ مرگئے وَھُمْ : اور وہ كُفَّارٌ : کافر اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلَيْهِمْ : ان پر لَعْنَةُ : لعنت اللّٰهِ : اللہ وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالنَّاسِ : اور لوگ اَجْمَعِيْنَ : تمام
بلاشبہ جن لوگوں نے راہ حق سے انکار کیا اور پھر مرتے دم تک اسی پر قائم رہے ، تو یہ وہی لوگ ہوں گے جن پر اللہ کی ، اس کے فرشتوں کی اور انسانوں سب کی لعنت ہوئی
کفر پر قائم رہنے والوں کے لئے اللہ اور اس کی تمام مخلوق کی لعنت ہے : 285: کفر پر قائم رہنے کا مطلب واضح ہے کہ وہ کفر پر قائم رہتے ہوئے مر گئے اور اس دار العمل سے انتقال کر کے وہ دار الجزاء کی طرف منتقل ہوگئے۔ جب تک کوئی شخص زندہ ہے وہ کتنا ہی گنہگار ہو اس پر لعنت کرنا جائز نہیں سوائے اس کے کسی کو متعین کر کے کہا جائے جیسے یہ کہا کہ جھوٹے پر لعنت یا یہ کہنا کہ چور پر لعنت اور مؤمن کے لئے لعنت تو اس کے قتل کرنے کے مترادف ہے یعنی اتنا گناہ اور ظلم ہے جتنا کسی کو ناحق قتل کرنا بلکہ زندگی میں تو کافر متعین تک کو بھی لعنت کی اجازت نہیں۔ ” وَ مَاتُوْا “ کی قید نے خود مسئلہ صاف کردیا کہ یہاں جن پر لعنت آئی ہے ان کی موت ہی کفر پر ہوچکی تھی اور اصل مدار ختم اعمال یا وفات پر ہے ۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنا چاہئے جو اپنے کسی بھائی کو لغزش میں مبتلا دیکھ کر جھٹ اس پر لعنت بھیجنے لگتے ہیں اور خصوصاً یہ عورتوں کی عادت تو راسخ ہی ہوچکی ہے۔ لعنت کیا ہے ؟ اللہ کی رحمت سے دوری کا نام اصل میں لعنت ہے شیطان کا لعنتی ہونا عام لوگوں میں معروف ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کردیا گیا ہے یعنی اس پر کبھی بھی اللہ کی رحمت نازل نہیں ہوتی اور نہ ہی رحمت نازل ہونے کا کوئی امکان ہے اس طرح جو لوگ ہمیشہ دوزخ میں رہنے کے مستحق ہوگئے گویا وہ اللہ کی رحمت سے ہمیشہ ہمیشہ دور کردیئے گئے اور دوسرے لفظوں میں وہ اللہ کی لعنت کے مستحق ہوگئے اور جو شخص اللہ کی لعنت کا مستحق ہوا اس پر گویا فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہوگئی۔
Top