Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 92
اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ قَبِیْلًاۙ
اَوْ : یا تُسْقِطَ : تو گرادے السَّمَآءَ : آسمان كَمَا زَعَمْتَ : جیسا کہ تو کہا کرتا ہے عَلَيْنَا : ہم پر كِسَفًا : ٹکڑے اَوْ تَاْتِيَ : یا تو لے آوے بِاللّٰهِ : اللہ کو وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے قَبِيْلًا : روبرو
یا جیسا کہ تو نے خیال کیا ہے ، آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہم پر آ گرے یا اللہ اور اس کے فرشتے ہمارے سامنے آ کھڑے ہوں
ان کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ اچھا وہ عذاب ہی لے آ جس سے تو ہم کو اکثر ڈرایا کرتا ہے : 110۔ انسانی عادت بھی بڑی عجیب ہے کہ جب اس کو غصہ آتا ہے تو وہ بحالت غصہ ایسی ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو عام حالت میں کبھی نہیں کہہ سکتا ۔ نبی اکرم ﷺ نے بحکم الہی نبوت کا دعوی کیا تو قریش مکہ کے غصہ کی انتہا نہ رہی اور عالم غصہ میں انہوں نے جو جو مطالبات کئے ان میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ اور کچھ نہیں تو ہمارے اوپر بادل کا ایک ٹکڑا ہی گرا دے اس طرح وہ گویا عذاب الہی کے مانگنے سے بھی نہ شرمائے ان کو کہا جارہا ہے کہ اے کفار مکہ اس طرح کہنے میں بھی تم اکیلے نہیں تم سے پہلے بھی لوگوں نے ایسے ایسے مطالبات کئے لہذا تم اچھی طرح سن لو کہ جس عذاب کے تم طالب ہو وہ میرے اختیار میں نہیں وہ تو رب العزت کے اختیار میں ہے اور وہ جب چاہے گا تم پر نازل کر دے گا اور ایک مطالبہ ان کا یہ بھی تھا کہ ہمارے سامنے اللہ کے فرشتے لا کر کھڑا کر دے ان کی اس بچگانہ بات کا بھی دوسری جگہ ان کو جواب دیا گیا کہ وہ چاہے گا عذاب کے فرشتوں کو نازل کردے گا لیکن جب ان کا نزول ہوگا تو تمہارا کام تمام کردیا جائے گا اور جب تم ہی نہ رہے تو اس مطالبہ کا جواب کس کو سنایا جائے گا ؟ اس طرح ان کے سخت سے سخت سوال سن کر بھی برداشت کیا گیا اور اللہ کی پکڑ اس وقت تک نہ آئی جب تک خود نبی اعظم وآخر ﷺ ان میں موجود رہے گویا جس سے وہ مطالبہ عذاب کر رہے تھے وہی ان سے عذاب کی روک کا اصل باعث تھا ۔ ﷺ
Top