Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور یہ لوگ تجھ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دے روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے اور تمہیں جو کچھ علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے
یہود کے اکسانے پر جو سوال قریش نے کیے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ روح کیا ہے ؟ 103: ترمذی ، نسائی اور مسند احمد میں ہے کہ قریش مکہ نے علمائے یہود سے سن کر یہ سوال نبی کریم ﷺ سے کیا تھا کہ روح کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور قرآن کریم کے الفاظ : یَسْـَٔلُوْنَكَ اس کی تصدیق کے لیے کفایت کرتے ہیں۔ تورات اور انجیل میں ” روح “ کا لفظ فرشتہ کے لیے بولا گیا ہے اور قرآن کریم نے فرشتہ اور وحی دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ پس یہاں الرُّوْحِ 1ؕ سے مقصود جسم انسانی کی روح ہے یا فرشتہ ؟ اس کے متعلق ائمہ تفسیر کی آراء الگ الگ ہیں ، لیکن اکثر مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ اس جگہ الرُّوْحِ 1ؕ سے مقصود جسم انسانی کی روح ہے نہ کہ فرشتہ مراد ہے۔ بہرحال سوال دونوں کے متعلق ہو سکتا ہے اور جواب بھی دونوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اس لیے اس میں زیادہ الجھنے کی ضرورت ہی آخر کیا ہے ؟ پھر آیت کی اصل موعظت سوال کی تفصیل میں نہیں ہے جواب کی نوعیت میں ہے ، فرمایا : مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ کہ اس معاملہ میں جو کچھ بھی تمہیں بتلایا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا حکم کام کر رہا ہے اور اس سے زیادہ تم پا نہیں سکتے پھر تم اس سے زیادہ پانے کی کوشش ہی کیوں کرو ؟ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا 0085 تمہارا دائرئہ علم نہایت محدود ہے تم اپنے علم و ادراک میں ایک خاص حد سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتے ، تم علم میں جو کچھ پا سکتے ہو اصل حقیقت کے مقابلہ میں بہت ہی تھوڑا ہے ، وہ اس سمندر میں چند قطروں سے زیادہ نہیں اور تمہیں اس پر قناعت کرنا ہے۔ انسان کے علم و ادراک کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ کہ اسے حواس دیئے گئے ہیں ، انہی کے ذریعے وہ محسوسات کا ادراک حاصل کرتا ہے لیکن خود محسوسات کے دائرہ کا کیا حال ہے ؟ یہ کہ کائنات ہستی کے سمندر میں ایک قطرہ سے زیادہ نہیں ، پھر اگر انسان تمام عالم محسوسات کا علم حاصل بھی کرلے تو اس کی مقدار حقیقت کے مقابلہ میں کیا ہوگی ؟ ایک قطرہ کا علم ، اس سے زیادہ نہیں اور حالت یہ ہے کہ انسان محسوسات کے بھی کامل علم کا دعویٰ نہیں کرسکتا وہ ہمیشہ اس ایک قطرہ کے لیے پیاسا رہا اور آج تک پیاسا ہے اور رہتی دنیا تک پیاسا رہے گا۔ پھر اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ فرمایا : مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ، میرے پروردگار کے حکم سے یعنی وہ پروردگار ہے اور پروردگاری یہی چاہتی ہے کہ یہ جوہر پیدا ہو۔ زیر نظر آیت سے ہمارے علمائے کرام نے اس طرح کے استدلال کیے ہیں : ! ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں۔ " جواب دیتے وقت سائل کی وسعت عقل کا خیال رکھنا ضروری ہے۔# سائل کی دینی مصلحت کا خیال رکھنا چاہیے۔$ سوال کا ادھورا جواب بھی دیا جاسکتا ہے۔% ہر سوال کا جواب طلب کرنا یا جواب دینا ضروری نہیں۔^ جو جواب مخاطب کے فہم سے بالاتر ہو یا مخاطب کے غلط فہمی میں پڑجانے کا خطرہ ہو تو اس کا جواب بالکل نہیں دینا چاہیے۔ یہ تو وہ استنباط ہیں جو مفسرین نے بیان کیے ہیں اور مختلف تفاسیر میں پڑھے جاسکتے ہیں لیکن جو جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اور وہ زبان پر لانے کے لیے تیار نہیں وہ سب اللہ ہی جانتا ہے۔ ہم پورا زور دے کر ان سارے استنباطات سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو اللہ اور بندے کے درمیان حجابات ہیں وہ انسانوں کے درمیان نہیں ہو سکتے اور عالم و مفسر خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو بہرحالانسان ہے ، اس کو اللہ میاں کے مقام پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں اور اگر اس کو کوئی یہ حق دے گا تو وہ یقیناً اس کو اپنا ” رب “ ہی تسلیم کرے گا جو بذاتہٖ کفر ہے ، شرک ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر پر من مانیاں کرنے کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آیا روح کی حقیقت کا علم کسی کو ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ پھر اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ روح کی حقیقت کو کوئی انسان سمجھ نہیں سکتا یا یہ کہ خود رسول اللہ ﷺ کو بھی اس کی حقیقت معلوم نہیں تھی۔ حق بات یہ ہے کہ زیر نظر آیت نہ اس کی نفی کرتی ہے اور نہ اثبات۔ اگر کسی نبی و رسول کو وحی کے ذریعے کسی دل کو کشف والہام کے ذریعے اس کی حقیقت معلوم ہوجائے تو وہ اس آیت کے خلاف نہیں۔ ہاں ! عقل و فلسفہ کے ذریعہ اس پر بحث کی جائے تو اس کو فضول و لا یعنی کہا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے متقدمین اور متاخرین نے روح کے متعلق کتابیں لکھی ہیں اگر اس پر بحث و تمحیص منع ہوتی تو آخر وہ کتابیں کیوں لکھتے ؟ اس طرح انہوں نے آیت کے اصل مفہوم کو اس طرح مسخ کردیا ہے کہ اس کا نازل ہونا بےمعنی اور بےمقصد بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہاں ! اگر اس کا کوئی مقصد ہے تو وہ یہ ہے کہ علمائے کرام انسانوں سے کوئی ماوراء چیز ہوتے ہیں جن کا رتبہ عقل و بصیرت سے کام لینے والوں کے مقابلہ میں بہت اونچا ہے اور یہ کہ عقل و بصیرت محض ایک خبط ہے اور علمائے کرام اور جن کو لوگ ولی سمجھ لیں یا کہہ دیں ان کا سارا خبط عین علم ہے۔ پھر اس تفسیر پر ” انا اللہ “ نہ پڑھا جائے تو وہ کیا کیا جاسکتا ہے ؟ مطلب یہ ہوا کہ کچھ کہنا چاہتے ہو تو پہلے آپنے آپ کو عالم یا ولی منواؤ اگر تم اس میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے تو پھر جو چاہو کہو تم کو سب کچھ کہنے کا حق مل جائے گا ، سبحان اللہ کیا تفہیم ہے اور کیا تفسیر ہے کہ اس نے یہود کے بھی کان کاٹ دیئے ہیں ۔
Top