Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 80
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا
وَقُلْ : اور کہیں رَّبِّ : اے میرے رب اَدْخِلْنِيْ : مجھے داخل کر مُدْخَلَ : داخل کرنا صِدْقٍ : سچا وَّاَخْرِجْنِيْ : اور مجھے نکال مُخْرَجَ : نکالنا صِدْقٍ : سچا وَّاجْعَلْ : اور عطا کر لِّيْ : میرے لیے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے سُلْطٰنًا : غلبہ نَّصِيْرًا : مدد دینے والا
اور تیری دعا یہ ہونی چاہیے کہ اے پروردگار ! مجھے سچائی کے ساتھ پہنچا اور سچائی کے ساتھ نکال اور مجھے اپنے حضور سے قوت عطا فرما ، ایسی قوت کہ مددگاری کرنے والی ہو
ہجرت کی اجازت الٰہی اور بوقت ہجرت ترانہ خداوندی کی ہدایت ِ خاص : 98: زیر نظر آیت میں مُدْخَلَ اور مُخْرَجَ کے الفاظ آئے ہیں۔ مطلب ان کا ” داخل ہونے “ اور ” نکلنے “ اور پھر صِدْقٍ کے لفظ نے یہ وضاحت کردی کہ یہ داخل ہونا اور نکلنا سب اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق اور خیر و خوبی کے ساتھ ہو ۔ قرآن کریم میں ، اور کے الفاظ انہی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ اس جگہ مُدْخَلَ سے مدینہ منورہ اور مُخْرَجَ سے مکہ مکرمہ ہے اور نبی کریم ﷺ کو وہ ترانہ سکھایا گیا جس کے نتیجہ میں آپ ﷺ بخیریت مکہ سے نکلیں گے اور خیر و خوبی کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوں گے اور دنیا نے دیکھا کہ فی الواقعہ وہی ہوا جو رب العزت نے ارشاد فرمایا ، چناچہ ہجرت کا بیان اس طرح کتب احادیث اور سیر میں لکھا گیا ہے کہ : نبوت کا تیرہواں سال شروع ہوا تھا اور اکثر صحابہ کرام ؓ مدینہ پہنچ چکے تھے کہ وحی الٰہی کے حکم سے نبی اعظم و آخر ﷺ نے بھی مدینہ کا رخ کیا ، یہ داستان بہت پراثر ہے ، اس وجہ سے امام بخاری (رح) نے باوجود اختصار پسندی کے اس کو خوب پھیلا کر لکھا اور زیادہ تر سیّدہ عائشہ ؓ کی زبانی لکھا ہے۔ سیدہ ؓ اس وقت نہ تو اتنی چھوٹی تھیں کہ بالکل کچھ نہ جانتی ہوں اور نہ اتنی بڑی تھیں کہ سب کچھ جانتی ہوں۔ بلاشبہ انسان نے بہت سی باتیں دیکھی اور سمجھی ہوں گی اور بہت سی باتیں وہ ہوں گی جو خود نبی اعظم و آخر ﷺ سے سنی ہوں گی اور اپنے والد بزرگوار سیّدنا ابوبکر صدیق ؓ سے بھی معلوم ہوئی ہوں گی۔ آپ کہتی ہیں کہ : قریش نے دیکھا کہ اب مسلمان مدینہ میں جا کر طاقت پکڑتے جاتے ہیں اور وہاں اسلام پھیلتا جاتا ہے۔ اس بناء پر انہوں نے دارالندوہ میں جو دارالشوریٰ تھا ، اجلاس عام کیا۔ ہر قبیلہ کے رؤسا یعنی عتبہ ، ابو سفیان ، جبیر بن مطعم ، نصر بن حارث بن کلدہ ، ابو البختری ، ابن ہشام ، زمعہ بن اسود بن مطلب ، حکیم بن حزام ، ابوجہل ، نبیہ ، ومنبہ ، امیہ بن خلف وغیرہ یہ سب شریک تھے۔ لوگوں نے مختلف آراء پیش کیں۔ ایک نے کہا : ” محمد (a) کے ہاتھ پاؤں میں زنجیریں ڈال کر مکان میں بند کردیا جائے “۔ دوسرے نے کہا : ” جلا وطن کردینا کافی ہے “۔ ابوجہل نے کہا ہر قبیلے سے ایک شخص کا انتخاب ہو اور پورا مجمع ایک ساتھ مل کر تلواروں سے ان کا خاتمہ کر دے۔ اس صورت میں ان کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور آل ہاشم اکیلے تمام قبائل کا مقابلہ نہ کرسکیں گے۔ اس اخیر رائے پر اتفاق ہوگیا اور جھٹ پٹے سے آ کر رسول اللہ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ اہل عرب زنانہ مکان کے اندر گھسنا معیوب سمجھتے تھے۔ اس لیے باہر ٹھہرے رہے کہ آنحضرت ﷺ نکلیں تو یہ فرض ادا کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ سے قریش کو اس درجہ عداوت تھی ، تاہم آپ ﷺ کی دیانت پر یہ اعتماد تھا کہ جس شخص کو کچھ مال و اسباب امانت رکھنا ہوتا تھا آپ ﷺ ہی کے پاس لا کر رکھتا تھا۔ اس وقت بھی آپ ﷺ کے پاس بہت سی امانتیں جمع تھیں ، آپ ﷺ کو قریش کے ارادہ کی پہلے سے خبر ہوچکی تھی اس بناء پر حضرت علی ؓ کو بلا کر فرمایا کہ : ” مجھ کو ہجرت کا حکم ہوچکا ہے میں آج مدینہ روانہ ہوجاؤں گا ، تم میرے پلنگ پر میری چادر اوڑھ کر سو رہو ، صبح کو سب کی امانتیں جا کر واپس دے آنا “۔ یہ سخت خطرہ کا موقع تھا۔ حضرت علی ؓ کو معلوم ہوچکا تھا کہ قریش آپ ﷺ کے قتل کا ارادہ کرچکے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کا بستر خواب قتل گاہ کی زمین ہے لیکن فاتح خیبر کے لیے قتل گاہ فرشِ گل تھا۔ (بخاری باب الہجرت) ہجرت سے دو تین دن پہلے رسول اللہ ﷺ نے دوپہر کے وقت حضرت ابوبکر ؓ کے گھر پر گئے ، دستور کے موافق دروازہ پر دستک دی۔ اجازت کے بعد گھر میں تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا : ” کچھ مشؤرہ کرنا ہے سب کو ہٹا دو “۔ بولے : یہاں آپ ﷺ کی حرم کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ (اس وقت حضرت عائشہ ؓ سے شادی ہوچکی تھی) آپ ﷺ نے فرمایا : ” مجھ کو ہجرت کی اجازت ہوگئی ہے “۔ حضرت ابوبکر ؓ نے نہایت بےتابی سے کہا : ” میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں ، کیا مجھ کو بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوگا ؟ “ ارشاد ہوا : ” ہاں ! “ حضرت ابوبکر ؓ نے ہجرت کے لیے چار مہینہ سے دو اونٹنیاں ببول کی پتیاں کھلا کھلا کر تیار کی تھیں۔ عرض کی کہ ان میں سے ایک آپ ﷺ پسند فرمائیں ، محسن عالم ﷺ کو کسی کا احسان گوارا نہیں ہو سکتا تھا۔ ارشاد ہوا : ” اچھا ! مگر بہ قیمت ! حضرت ابوبکر ؓ نے مجبوراً قبول کیا۔ حضرت عائشہ ؓ اس وقت کمسن تھیں۔ ان کی بڑی بہن حضرت اسماء ؓ نے جو حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی ماں تھیں ، سفر کا سامان کیا۔ دو تین دن کا کھانا ناشتہ دان میں رکھا ، نطاق جس کو عورتیں کمر سے لپیٹتی ہیں پھاڑ کر اس سے ناشہ دان کا منہ باندھا ، یہ وہ شرف تھا جس کی بنا پر آج تک ان کو ذات النطاقین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری ، باب الہجرت) کفار نے جب آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کیا اور رات زیادہ گزر گئی تو قدرت نے ان کو بیخبر کردیا۔ آنحضرت ﷺ ان کو سوتا چھوڑ کر باہر آئے۔ کعبہ کو دیکھا اور فرمایا : ” مکہ ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے ، لیکن تیرے فرزند مجھ کو رہنے نہیں دیتے “۔ حضرت بوبکر ؓ سے پہلے سے قرارداد ہوچکی تھی دونوں صاحب پہلے جبل ثور کے غار میں جا کر پوشیدہ ہوئے ، یہ غار آج بھی موجود ہے اور بوسہ گاہ خلائق ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ کے بیٹے عبداللہ جو نوخیز جوان تھے ، شب کو غار میں سوتے ، صبح منہ اندھیرے شہر چلے جاتے اور پتہ لگاتے کہ قریش کیا مشورہ کر رہے ہیں۔ جو کچھ خبر ملتی شام کو آ کر آنحضرت ﷺ سے عرض کرتے۔ حضرت ابوبکر ؓ کا غلام کچھ رات گئے بکریاں چرا کر لاتا اور آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ ان کا دودھ پی لیتے۔ تین دن تک صرف یہی غذا تھی لیکن ابن ہشام نے لکھا ہے کہ روزانہ شام کو حضرت اسماء ؓ گھر سے کھانا پکا کر غار میں پہنچا آتی تھیں۔ اسی طرح تین راتیں غار میں گزریں۔ (صحیح بخاری باب الہجرۃ) صبح کو قریش کی آنکھیں کھلیں تو پلنگ پر آنحضرت ﷺ کی بجائے حضرت علی ؓ تھے۔ ظالموں نے آپ کو پکڑ کو اور حرم میں لے جا کر تھوڑی دیر محبوس رکھا ، پھر چھوڑ دیا۔ پھر آنحضرت ﷺ کی تلاش میں نکلے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار کے دہانہ تک آگئے۔ آہٹ پا کر حضرت ابوبکر ؓ غمزدہ ہوئے اور آنحضرت ﷺ سے عرض کی کہ اب دشمن اس قدر قریب آگئے ہیں کہ اگر اپنے قدم پر ان کی نظر پڑجائے تو ہم کو دیکھ لیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا 1ۚ (توبہ : 40) ” گھبراؤ نہیں ، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “ مشہور ہے کہ جب کفار غار کے قریب آگئے تو اللہ نے حکم دیا ، دفعتاً ببول کا درخت اگا اور اس کی ٹہنیوں نے پھیل کر آنحضرت ﷺ کو چھپا لیا۔ ساتھ ہی دو کبوتر آئے اور گھونسلہ بنا کر انڈے دیئے۔ حرم کے کبوتر انہی کبوتروں کی نسل سے ہیں۔ اس روایت کو مواہب لدنیہ میں تفصیل سے نقل کیا گیا ہے اور زرقانی نے بزاز وغیرہ سے اس کے ماخذ بتائے ہیں لیکن یہ تمام روایتیں غلط ہیں۔ اس روایت کا اصل راوی عون بن عمرو ہے۔ اس کی نسبت امام فن رجال یحییٰ بن معین کا قول ہے : لا شیئی ، یعنی ہیچ ہے۔ امام بخاری (رح) نے کہا کہ وہ منکر الحدیث اور مجہول ہے۔ اس روایت کا ایک اور راوی ابو مصعب مکی ہے ، وہ مجہول الحال ہے۔ چناچہ علامہ ذہنی نے میزان الاعتدال میں عون بن عمرو کے حال میں یہ تمام اقوال نقل کیے ہیں اور خود اس روایت کا بھی ذکر کیا ہے۔ (سیرت النبی ﷺ ج 3 ، ص : 307) بہرحال چوتھے دن آپ ﷺ غار سے نکلے ، عبداللہ بن اریقط ایک کافر جس پر اعتماد تھا ، راہنمائی کے لیے اجرت پر مقرر کرلیا گیا۔ وہ آگے آگے راستہ بتاتا جاتا تھا۔ ایک رات دن برابر چلت گئے۔ دوسرے دن دوپہر کے وقت دھوپ سخت ہوگئی تو حضرت ابوبکر ؓ نے چاہا کہ رسول اللہ ﷺ اس سایہ میں آرام فرما لیں ، چاروں طرف نظر ڈالی۔ ایک چٹان کے نیچے سایہ نظر آیا۔ سواری سے اتر کر زمین جھاڑی ، پھر اپنی چادر بچھا دی ، آنحضرت ﷺ نے آرما فرمایا تو تلاش میں نکلے کہ کہیں کچھ کھانے کو مل جائے تو لائیں ، پاس ہی ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا۔ اس سے کہا ایک بکری کا تھن گردو غبار سے صاف کر دے۔ پھر اس کے ہاتھ صاف کرائے اور دودھ دوہا۔ برتن کے منہ پر کپڑا لپیٹ دیا کہ گرد نہ پڑنے پائے۔ دودھ لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور تھوڑا سا پانی ملا کر پیش کیا۔ آپ ﷺ نے پی کر فرمایا کہ کیا ابھی چلنے کا وقت نہیں آیا ؟ آفتاب اب ڈھل چکا تھا ، اس لیے آپ ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے۔ (صحیح بخاری باب منافق المہاجرین) قریش نے منادی کرا دی کہ جو شخص محمد رسول اللہ ﷺ یا ابوبکر (b) کو گرفتار کر کے لائے گا اس کو ایک خون بہا کے برابر (یعنی سو اونٹ) انعام دیا جائے گا۔ سراقہ بن جعشم نے سنا تو انعام کے لالچ میں نکلا۔ عین اس حالت میں کہ آپ ﷺ روانہ ہو رہے تھے اس نے آپ ﷺ کو دیکھ لیا اور گھوڑا دوڑا کر قریب آگیا لیکن گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور گر پڑا۔ ترکش سے فال کے تیر نکال کر حملہ کرنا چاہیے یا نہیں ؟ جو اب میں ” نہیں “ نکلا لیکن سو اونٹوں کا گراں بہا معاوضہ ایسا نہ تھا کہ تیر کی بات مان لی جاتی۔ دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوا اور آگے بڑھا۔ اس مرتبہ گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے۔ گھوڑے سے اتر پڑا اور پھر فال دیکھی۔ اب بھی وہی جواب تھا لیکن مکرر تجربہ نے اس کی ہمت پست کردی اور یقین ہوگیا کہ یہ کچھ اور آثار ہیں۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے قریب آ کر قریش کی منادی کا واقعہ سنایا اور درخواست کی کہ مجھ کو امن کی تحریر لکھ دیجیے۔ حضرت ابوبکر ؓ کے غلام عامر بن فہرہ ؓ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر فرمانِ امان لکھ دیا۔ (صحیح بخاری باب الہجرۃ) حسن اتفاق یہ کہ حضرت زبیر ؓ شام سے تجارت کا سامان لے کر آ رہے تھے ، انہوں نے آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کی خدمت میں چند بیش قیمت کپڑے پیش کیے جو اس بےسروسامانی میں غنیمت تھے۔ ابن سعد نے طبقات میں اس مقدس سفر کی تمام منزلیں گنائی ہیں۔ اگرچہ عرب کے نقشوں میں آج ان کا نشان نہیں ملتا ، تاہم عقیدت مند صرف نام سے لذت یاب ہو سکتے ہیں : خرار ، ثنیۃ المرۃ ، لقف مدلجتہ ، مرجع ، حدائد ، اذاخر ، رابغ (یہ مقام آج بھی حجاج کے راستہ میں آتا ہے ، یہاں آپ ﷺ نے مغرب کی نماز پڑھی) ذاسلم ، عثانیہ ، قاحہ ، عرج ، جدوات ، رکوبتہ ، عقیق ، ججاتہ۔ تشریف آوری کی خبر مدینہ میں پہلے پہنچ چکی تھی۔ تمام شہر ہمہ تین چشم انتظار میں تھا۔ معصوم بچے فخر اور جوش میں کہتے تھے۔ پیغمبر (a) آ رہے تھے۔ لوگ ہر روز تڑکے سے نکل نکل کر شہر کے باہر جمع ہوتے اور دوپہر تک انتظار کر کے حسرت کے ساتھ واپس چلے جاتے۔ ایک دن انتظار کر کے واپس جا چکے تھے کہ ایک یہودی نے قلعہ سے دیکھا اور قرآئن سے پہچان کر پکارا کہ : ” اے اہل عرب ! لو تم جس کا انتظار کرتے تھے وہ آگیا “ ۔ تمام شہر تکبیر کی آوازا سے گونج اٹھا ، انصار ہتھیارسج سج کر بےتابانہ گلیوں سے باہر نکل آئے۔ مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر جو بالائی آبادی ہے اس کو عالیہ اور قباء کہتے ہیں۔ یہاں انصار کے بہت سے خاندان آباد تھے ، ان میں سب سے زیادہ ممتاز عمرو بن عوف کا خاندان تھا اور کلثوم بن الہدم خاندان کے افسر تھے۔ آنحضرت ﷺ یہاں پہنچے تو تمام خاندان نے جوشِ مسرت میں اللہ اکبر کا نعرہ مارا۔ یہ فخر ان کی قسمت میں تاکہ میزبان دو عالم ﷺ نے انہی کی مہمانی قبول کی ، انصار ہر طرف سے جوق در جوق آتے اور جوشِ عقیدت کے سلام عرض کرتے۔ (صحیح بخاری ، ص : 56) اکثر اکابر صحابہ ؓ جو آنحضرت ﷺ سے پہلے مدینہ میں آ چکے تھے وہ بھی انہی کے گھر میں اترے تھے۔ چناچہ حضرت ابوعبیدہ ، مقداد ، خباب ، سہیل ، صفوان ، عیاض ، عبداللہ بن مخرمہ ، وہب بن سعد ، معمر بن ابی سرح ، عمیر ؓ بن عوف اب تک انہی کے مہمان تھے۔ جناب امیر ؓ آنحضرت ﷺ کے روانہ ہنے کے تین دن بعد مکہ سے چلے تھے ، وہ بھی آگئے اور یہیں ٹھہرے۔ تمام مؤرخین اور ارباب سیر لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے یہاں صرف چار دن قیام فرمایا لیکن صحیح بخاری میں چودہ دن ہے اور یہی قرین قیاس ہے۔ یہاں آپ ﷺ کا پہلا کام مسجد کا تعمیر کرانا تھا۔ حضرت کلثوم ؓ کی ایک افتادہ زمین تھی جہاں کھجوریں سکھائی جاتی تھیں۔ یہیں دست مبارک سے مسجد کی بنیاد ڈالی۔ یہی مسجد ہے جس کی شان میں قرآن مجید میں ہے کہ : لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ 1ؕ فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا 1ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ 00108 (التوبہ 9 : 108) ” وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن پرہیزگارہ پر رکھی گئی ہے وہ اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس میں کھڑے رہو ، اس میں ایسے لوگ ہیں جن کو صفائی بہت پسند ہے اور اللہ صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ “ مسجد کی تعمیر میں مزدوروں کے ساتھ آپ ﷺ خود بھی کام کرتے تھے۔ بھاری بھاری پتھروں کو اٹھاتے وقت جسم مبارک خم ہوجاتا تھا۔ عقیدت مند آتے اور عرض کرتے : ” ہمارے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں ، آپ ﷺ چھوڑ دیں ، ہم اٹھا لیں گے “۔ آپ ﷺ اس کی درخواست قبول فرماتے لیکن پھر اسی وزن کاد وسرا پتھر اٹھا لیتے۔ (وفا الوفا ج 1 ، ص : 181 ، طبع مصر) حضرت عبداللہ ؓ بن رواحہ شاعر تھے ، وہ بھی مزدوروں کے ساتھ شریک تھے اور جس طرح مزدور کام کرنے کے وقت تھکن مٹانے کو گاتے جاتے ہیں ، وہ یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے : افلح من یعالج المساجدا وہ کامیاب ہے جو مسجد تعمیر کرتا ہے و یقرء القرآن قائمًا وقاعدًا اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے لا یبثت اللیل عنہ اقدا اور رات کو جاگتا رہتا ہے آنحضرت ﷺ بھی ہر ہر قافیہ کے ساتھ آواز ملاتے جاتے تھے۔ (ایضاً ) قباء میں اسلام کا داخلہ اسلام کے دور خاص کی ابتداء ہے اس لیے مؤرخین نے اس تاریخ کو زیادہ اہتمام کے ساتھ محفوظ رکھا ہے۔ اکثر مؤرخین کا اتفاق ہے کہ یہ آٹھ ربیع الاول 13 نبوی (بمطابق 20 ستمبر 622 ء) تھی ، (محمد بن) موسیٰ خوارزمی نے لکھا ہے کہ جمعرات کا دن اور فارسی ماہ تیر کی چوتھی تاریخ اور رومی ماہ ابلول 1933 اسکندری کی دسویں تاریخ تھی۔ عینی شرح بخاری جلد دوم ص : 354 (یعنی مطبوعہ قسطنطنیہ میں مطبع کی غلطی سے 733 سبع آیہ لکھا گیا ہے اس تسع آیہ پڑھنا چاہیے۔ رومی ماہ ابلول کی دسویں کے بجائے جدید طریقہ سے حساب سے بیسویں ثابت ہوتی ہے۔ خوارزی نے جمعہ کا دن بتایا ہے لیکن جدید حساب سے دو شنبہ کا دن آتا ہے۔ مؤرخ یعقوبی نے ہیئت دانوں سے یہ زائچہ نقل کیا ہے : آفتاب برج سرطان میں 32 درجہ 6 دقیقہ پر زحل برج اسد میں 2 درجہ مشتری برج حوت میں 6 درجہ زہرہ برج اسد میں 13 درجہ عطارد برج اسد میں 15 درجہ چودہ دن کے بعد ) جمعہ کو) آپ ﷺ شہر کی طرف تشریف فرما ہوئے ، راہ میں بنی سالم کے محلہ میں نماز کا وقت آگیا۔ جمعہ کی نماز یہیں ادا فرمائی ، نماز سے پہلے خطبہ دیا۔ یہ آنحضرت ﷺ کی سب سے پہلی نماز ِ جمعہ اور سب سے پہلا خطبہ نماز تھا۔ لو گوں کو جب تشریف آوری کی خبر معلوم ہوئی تو ہر طرف سے لوگ جوشِ مسرت سے پیش قدمی کے لیے دوڑے۔ آپ ﷺ کے ننہالی رشتہ دار بنو بنجار ہتھیار سج سج کر آئے۔ قباء سے مدینہ تک دو رویہ جانثاران کی صفیں تھیں ، راہ میں انصار کے خاندان آتے تھے۔ ہر قبیلہ سامنے آ کر عرض کرتا۔ ” حضور ﷺ یہ گھر ہے ، یہ مال ہے ، یہ جان ہے “۔ آپ ﷺ منت کا اظہار فرماتے اور دعائے خیر دیتے۔ شہر قریب آگیا تو جوش کا یہ عالم تھا کہ پردہ نشیں خواتین چھتوں پر نکل آئیں اور گانے لگیں ؎ طلع البع علینا 1 من ثنیات الوداع 1 وجب الشکر علینا 1 ما دعی للہ داع 1 چاند نکل آیا کو ہِ وداع کی گھاٹیوں سے ہم پر خدا کا شکر واجب ہے جب تک دعا مانگے والے دعا مانگیں معصوم لڑکیاں دَف بجا بجا کر گاتی تھیں ؎ نحن جوار من بنی النجار 1 یا حبذا محمدا من جار ہم خاندان نجار کی لڑکیاں ہیں۔ محمد (a) کیا اچھا ہمسایہ ہے آپ ﷺ نے ان لڑکیوں کی طرف خطاب کر کے فرمایا : ” کیا تم مجھ کو چاہتی ہوں ؟ ” بولیں : ” ہاں ! “ فرمایا : ” میں بھی تم کو چاہتا ہوں “۔ جہاں اب مسجد نبوی ہے اس سے متصل حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا گھر تھا ، جب کنبہ نبوی ہاں پہنچا ، سخت کشمکش تھی کہ آپ ﷺ کی میزبانی کا شرف کس کو حاصل ہو ؟ قرعہ ڈالا گیا اور آخر یہ دولت حضرت ابو ایوب ؓ کے حصہ میں آئی۔ حضرت ابو ایوب ؓ کا نام خالد ہے۔ اصابہ فی احوال ال صحابہ میں اسی نام سے ان کا ذکر کیا ہے اور وہیں یہ واقعہ لکھا ہے۔ اکثر سیر اور تواریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ہر شخص اپنے گھر میں اتارنے کی درخواست کرتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے ناقہ کو چھوڑ دو ، وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے۔ چناچہ ناقہ حضرت ابو ایوب ؓ کے گھر کے سامنے جا کر بیٹھ گیا۔ اس لیے آپ ﷺ نے انہی کے گھر پر قیام فرمایا لیکن صحیح مسلم باب الہجرہ میں ہے کہ جب لو گوں میں آپ ﷺ کی میزبانی سے متعلق جھگڑا ہوا تو آپ ﷺ نے کہا : ” میں بنو نجار کے ہاں اتروں گا جو عبدالمطلب کے ماموں ہیں “ اس سے ثات ہوتا ہے کہ آنحضرت نے عمدا ایسا کیا تھا۔ حضرت ابو ایوب ؓ اسی خاندان سے تھے۔ امام بخاری (رح) نے تاریخ صغیر میں تصریح کی ہے کہ ابو ایوب ؓ کے گھر اترنا اسی قرابت کی وجہ سے تھا۔ حضرت ابو ایوب ؓ کا مکان دو منزلہ تھا۔ انہوں نے بالائی منزل پیش کی لیکن آپ ﷺ نے زائرین کی آسانی کے لیے نیچے کا حصہ پسند فرمایا۔ ابو ایوب ؓ دو وقتہ آپ ﷺ کی خدمت میں کھانا بھیجتے اور آپ ﷺ جو چھوڑ دیتے وہ ابو ایوب ؓ اور ان کی زوجہ کے حصہ میں آتا۔ کھانے میں جہاں آنحضرت ﷺ کی انگلیوں کا نشان پڑا ہوتا ، ابو ایوب ؓ بھی تبرکاً وہیں انگلیاں ڈالتے۔ ایک دن اتفاق سے بالائی منزل میں پانی کا برتن ٹوٹ گیا ، اندیشہ ہوا کہ پانی بہہ کر نیچے جائے اور آنحضرت ﷺ کو تکلیف ہو۔ گھر میں اوڑھنے کا صرف ایک لحاف تھا۔ حضرت ابو ایوب ؓ نے اس کو ڈال دیا کہ پانی جذب ہو کر رہ جائے۔ (اصابہ ذکر ابو ایوب اور زرقانی بحوالہ قاضی ابو یو سف ، حاکم و وفاء الوفا) آنحضرت ﷺ نے سات مہینہ تک یہیں قیام فرمایا۔ اس اثناء میں جب مسجد نبوی اور آس پاس کے حجرے تیار ہوگئے تو آپ ﷺ نے نقل مکان فرمایا۔ تفصیل آگے آتی ہے۔ مدینہ میں آ کر آپ ﷺ نے حضرت زید ؓ اور اپنے غلام ابو رافع کو دو اونٹ دیئے اور پانچ سو درہم دے کر بھیجا کہ مکہ جا کر صاحبزادیوں اور حرم نبوی کو لے آئیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ ؓ کو لکھا کہ وہ بھی اپنی ماں اور بہنوں کو لے کر چلے آئیں۔ آنحضرت ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے حضرت رقیہ ؓ حضرت عثمان ؓ کے ساتھ حبش میں تھیں۔ حضرت زینب ؓ کو ان کے شوہر نے آنے نہ دیا۔
Top